• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

بھٹو پھانسی ریفرنس: ’سپریم کورٹ قصور وار ہے یا اس وقت کا مارشل لا ایڈمنسٹریٹر؟ چیف جسٹس

شائع January 8, 2024
ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اب تک سپریم کورٹ میں 7 سماعتیں ہو چکی ہیں— فوٹو: ڈان نیوز
ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اب تک سپریم کورٹ میں 7 سماعتیں ہو چکی ہیں— فوٹو: ڈان نیوز

سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ اس میں سپریم کورٹ قصور وار ہے یا پھر اس وقت کا مارشل لا ایڈمنسٹریٹر؟

ڈان نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے 9 رکنی لارجر بینچ نے ریفرنس کی سماعت کی۔

گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے آرٹیکل 186 کے اسکوپ پر معاونت طلب کی تھی، علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے کیس پر معاونت کے لیے عدالتی معاونین بھی مقرر کیے تھے۔

بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

دوران سماعت رضا ربانی روسٹرم پر آئے، چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا آپ عدالتی معاون ہیں؟ رضا ربانی نے جواب دیا کہ میں عدالتی معاون نہیں لیکن بختاور اور آصفہ بھٹو کا وکیل ہوں، ہم نے کیس میں فریق بننےکی درخواست جمع کرائی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ ٹھیک ہوگیا اس درخواست کو دیکھتے ہیں۔

بعد ازاں عدالتی معاون صلاح الدین احمد روسٹرم پر آئے، انہوں نے بتایا کہ میری اہلیہ نواب احمد قصوری کی نواسی ہیں، عدالت فریقین سے پوچھ لے کہ میری معاونت پر کوئی اعتراض تو نہیں؟

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ اہلیہ نے اعتراض اٹھایا ہے تو پھر بڑا سنجیدہ معاملہ ہے، وکیل فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ ذوالفقار بھٹو کے ورثا کو بیرسٹر صلاح الدین پر اعتراض نہیں ہے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میرے والد ڈی جی ایف ایس ایف مسعود محمود کے بھٹو کیس میں وکیل تھے، اگر میرے اوپر بھی کسی کو اعتراض ہو تو بتا دیں، چیف جسٹس نے جواب دیا کہ آپ پر کسی فریق کو اعتراض نہیں آپ فیئر ہیں اس کا یقین سب کو ہے، رضاربانی نے خواجہ حارث کے عدالتی معاون پر اعتراض اٹھا دیا، خواجہ حارث نے خود کو بطور عدالتی معاون مقدمے سے الگ کر لیا۔

بعد ازاں مخدوم علی خان نے سید شریف الدین پیرزادہ کا خط پڑھ کر سنایا، ان کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی بہن نے صدر مملکت کے سامنے رحم کی اپیل دائر کی تھی ، ذوالفقار علی بھٹو نے بذات خود کوئی رحم کی اپیل دائر نہیں کی، ذوالفقار علی بھٹو کو 4 - 3 کے تناسب سے پھانسی کی سزا دی گئی، بعد میں ایک جج نے انٹرویو میں کہا کہ میں نے دباؤ میں فیصلہ دیا۔

اسی دوران احمد رضا قصوری کے روسٹرم پر آنے کے بعد چیف جسٹس نے ان کو بات کرنے سے روک دیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں، پہلے عدالتی معاون کو بات مکمل کرنے دیں، آپ کو ان کی کسی بات پر اعتراض ہے تو لکھ لیں۔

بدقمستی سے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ریورس نہیں ہو سکتی، مخدوم علی خان

مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کے سامنے سوال بھٹو کی پھانسی پر عمل کا نہیں ہے، بدقمستی سے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ریورس نہیں ہو سکتی، عدالت کے سامنے معاملہ اس کلنک کا ہے۔

بینچ میں شامل جسٹس محمد علی مظہر نے دریافت کیا کہ اگر اس کیس میں عدالت نے کچھ کیا تو کیا ہر کیس میں کرنا ہو گا؟ وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ اس ریفرنس کی بنیاد جسٹس نسیم حسن شاہ کا انٹرویو تھا.

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ ہمیں ٹی وی چینل کے ڈائریکٹر نیوز نے انٹرویو کی کاپی بھیجی ہے، انٹرویو شاید ہارڈ ڈسک میں ہے ، سربمہر ہے ابھی کھولا نہیں، عدالت نے اسٹاف کو انٹرویو کی کاپی ڈی سیل کرنے کی ہدایت جاری کردی۔

اس دوران جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ہمارے سامنے قانونی سوال کیا ہے؟ کیا ایک انٹرویو (جسٹس نسیم حسن شاہ کا جیو کو دیا گیا انٹرویو) کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے کر رائے دے دیں؟ کیا عدالت ایک انٹرویو کی بنیاد پر انکوائری کرے؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ انٹرویو ایک جج کا تھا جبکہ بینچ میں دیگر ججز بھی تھے،کیا ہم انٹرویو سے متعلقہ لوگوں کو بلا کر انکوائری شروع کریں؟ ہم صرف ایک انٹرویو کی ویڈیو دیکھ کر تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ ہوا تھا، آرٹیکل 186 کے تحت عدالت صرف قانونی سوالات پر رائے دے سکتی ہے۔

عدالت نے فاروق نائیک کی یو ایس بی کی ویڈیو کمرہ عدالت میں چلانے کی ہدایت دی،چیف جسٹس پاکستان نے دریافت کیا کہ جج صاحب کا یہ انٹرویو کب لیا گیا؟ نوٹ کر لیں 3 دسمبر 2003 کو یہ انٹرویو چلایا گیا۔

’عدالت ایک شخص کی عزت، تاریخ کی درستی دیکھ رہی ہے‘

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت اس وقت ایک شخص کی عزت اور تاریخ کی درستی دیکھ رہی ہے، عدالت بہتر مثال قائم کرنا چاہتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ واحد نکتہ یہی ہے کہ اس وقت عدلیہ آزاد نہیں تھی، ہم کیسے اس مشق میں پڑیں کہ بینچ آزاد نہیں تھا؟

جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ ایک جج کے انٹرویو سے پوری عدالت کے بارے یہ تاثر نہیں دیا جا سکتا کہ تب عدلیہ آزاد نہیں تھی؟ دوسرے ججز بھی تھے جنہوں نے اپنے نوٹس لکھے اور اختلاف کیا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کیس میں ایک جج کی رائے کو نظر انداز نہیں کر سکتے، بھٹو کیس میں بینچ کا تناسب ایسا تھا کہ ایک جج کی رائے بھی اہم ہے، ایک جج کے اکثریتی ووٹ کے تناسب سے ایک شخص کو پھانسی دی گئی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے دریافت کیا کہ ہمارے سامنے قانونی سوال کیا ہے؟ کیا ہم نے صرف قانونی سوال کا جواب دینا ہے؟ کیا ہم نے جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کی تحقیقات بھی کرانی ہیں؟ کیا ہم ایک انٹرویو کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے کر رائے دے دیں؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ کیا عدالت ایک انٹرویو کی بنیاد پر انکوائری کرے؟ انٹرویو ایک جج کا تھا جبکہ بینچ میں دیگر ججز بھی تھے، کیا ہم انٹرویو سے متعلقہ لوگوں کو بلا کر انکوائری شروع کریں؟ آرٹیکل 186 کے تحت عدالت صرف قانونی سوالات پر رائے دے سکتی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ بھی بتا دیں کہ بھٹو ریفرنس میں آخری قانونی سوال کیا پوچھا کیا گیا ہے؟

احمد رضا قصوری نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ نسیم حسن شاہ نے اپنی کتاب میں سارا واقعہ لکھا ہے جس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے احمد رضا قصوری سے مکالمہ کیا کہ آپ متعلقہ حصہ ڈھونڈ لیں عدالتی وقت ضائع نہ کریں۔

احمد رضا قصوری نے بتایا کہ کتاب میں جو لکھا گیا اگر ان پر دباؤ تھا تو استعفی دے دیتے، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ ہمیں نہ سمجھائیں جو پڑھنا ہے پڑھ لیں۔

دوران سماعت جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کا متعلقہ حصہ نہ مل سکا، چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے کہا کہ آپ نے درست ریکارڈنگ پیش نہیں کی، فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ یوٹیوب سے مین انٹرویو ہٹا دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے بتایا کہ متعلقہ ادارے نے ہمیں انٹرویو دیا ہے ایسا کرتے ہیں اس کی کاپیاں بنا دیتے ہیں، کاپی سے متعلقہ حصہ ہمیں دیکھائیں، اس انٹرویو میں تو مکمل بات ہی نہیں ہے، ہم ابھی عدالتی معاون مخدوم علی خان کو سن لیتے ہیں۔

کلنک ایک خاندان پر نہیں بلکہ اداروں پر بھی لگ چکا ہے، جسٹس مسرت ہلالی

وکیل مخدوم علی خان نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ انصاف سے زیادتی ہے، چیف جسٹس پاکستان نے دریافت کیا کہ کیا اس میں سپریم کورٹ قصور وار ہے یا پھر پراسیکیوشن اور اس وقت کا مارشل لا ایڈمسٹریٹر؟

جسٹس مسرت ہلالی نے دلیل دی کہ میری نظر میں ہمیں اپنی تاریخ کو درست کرنا چاہیے، کلنک ایک خاندان پر نہیں لگا بلکہ اداروں پر بھی لگ چکا ہے، اس پر وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ آپ نے بالکل درست بات کی ہے۔

بعد ازاں چیف جسٹس پاکستان جسٹس فائز عیسیٰ نے دریافت کیا کہ کیا اس مقدمے کو انتخابات کے بعد سنیں؟

وکیل فاروق ایچ نائیک نے استفسار کیا کہ مجھے ہدایات ہیں کہ کیس کو جلد سنا جائے۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ دو الیکشن تو پہلے ہی گزر چکے ہیں، عدالت پہلے معاونین کو سن لے، اٹارنی جنرل ، مجھے اور رضا ربانی صاحب کو بعد میں سنا جائے۔

بعد ازاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوایا، حکم نامے کے مطابق رضا ربانی نے بتایا کہ وہ صنم بھٹو، آصفہ بھٹو اور بختاور بھٹو زرداری کی نمائندگی کر رہے ہیں، زاہد ابراہیم فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار جونیئر کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

بعد ازاں کیس کی سماعت فروری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کر دی گئی۔

پس منظر

یاد رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کےخلاف اپریل 2011 میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اب تک سپریم کورٹ میں 7 سماعتیں ہو چکی ہیں۔

صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو جبکہ 11سال قبل آخری سماعت 12 نومبر 2012 کو ہوئی تھی جس کے بعد مزید کوئی سماعت نہیں ہو سکی تھی۔

صدارتی ریفرنس پر پہلی 5 سماعتیں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کیں جبکہ آخری سماعت 9 رکنی لارجر بینچ نے کی تھی۔

تاہم حال ہی میں اس کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا گیا جس کے تحت مقدمے کی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر سربراہی 12 دسمبر کو 9 رکنی بینچ نے مقدمے کی دوبارہ سماعت کی تھی۔

‏سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس 5 سوالات پر مبنی ہے، صدارتی ریفرنس کا پہلا سوال یہ ہے کہ ذوالفقار بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق مطابق تھا؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟

تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟

چوتھے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟

جبکہ پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024