190 ملین پاؤنڈز ریفرنس: ملک ریاض سمیت چھ ملزمان اشتہاری اور مفرور قرار
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 190 ملین پاؤنڈز کے القادر ٹرسٹ ریفرنس میں پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سمیت ریفرنس کے چھ شریک ملزمان کو اشتہاری اور مفرور مجرم قرار دے دیا۔
ڈان نیوز کے مطابق ملزمان کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی ایک ماہ قبل شروع کی گئی تھی جس میں ان کے وارنٹ بھی جاری کیا گیا تھا۔
آج سماعت کے موقع پر تفتیشی افسر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وارنٹ کی تعمیل نہیں ہو سکی ہے جس کے بعد عدالت کی جانب سے ملک ریاض، ان کے بیٹے علی ریاض ملک، فرحت شہزادی، ضیاالاسلام، شہزاد اکبر، زلفی بخاری کو اشتہاری اور مفرور قرار دے دیا گیا۔
اس سے قبل بانی پی ٹی آئی عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف 190ملین پاؤنڈ ریفرنس کی کی سماعت کے موقع پر نقول فراہم نہیں کی جا سکیں جس کے بعد فرد جرم کی کارروائی کا آغاز کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ سماعت کے دوران ملزم ملک ریاض کی جانب سے وارنٹ منسوخی کی درخواست دائر کی گئی جس پر فریقین کے دلائل مکمل ہوگئے اور فیصلہ بھی محفوظ کرلیا گیا ہے۔
ملزم ملک ریاض نے حاضری سے استثنیٰ اور وڈیو لنک کے ذریعے حاضری سے متعلق دو الگ الگ درخواستیں بھی دائر کی لیکن ملزم کی جانب سے دائر دونوں درخواستوں کو عدالت نے خارج کردیا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل 4 جنوری کو بھی عمران خان اور ان کی اہلیہ پر فرد جرم نہیں عائد ہوسکی تھی اور اور 190 ملین پاؤنڈز ریفرنسز میں درخواست ضمانت پر نیب کی جانب سے دلائل دیے گئے تھے جس کے بعد سماعت 6 جنوری تک ملتوی کردی گئی تھی۔
واضح رہے کہ القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو بھیجے گئے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سیکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔
یہ کیس القادر یونیورسٹی کے لیے زمین کے مبینہ طور پر غیر قانونی حصول اور تعمیر سے متعلق ہے جس میں ملک ریاض اور ان کی فیملی کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے ذریعے 140 ملین پاؤنڈ کی وصولی میں غیر قانونی فائدہ حاصل کیا گیا۔
عمران خان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے طے پانے والے معاہدے سے متعلق حقائق چھپا کر کابینہ کو گمراہ کیا، رقم (140 ملین پاؤنڈ) تصفیہ کے معاہدے کے تحت موصول ہوئی تھی اور اسے قومی خزانے میں جمع کیا جانا تھا لیکن اسے بحریہ ٹاؤن کراچی کے 450 ارب روپے کے واجبات کی وصولی میں ایڈجسٹ کیا گیا۔
گزشتہ سال کے اوائل میں سابق وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے منی لانڈرنگ کیس میں عمران اور ان کی اہلیہ پر بحریہ ٹاؤن کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے 50 ارب روپے اور سینکڑوں کنال اراضی لینے کا الزام لگایا تھا۔
انہوں نے الزام لگایا تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے برطانیہ میں پاکستانی شہری کو 50 ارب روپے غیر قانونی طور پر منتقل کیے، رقم منتقلی کی نشاندہی برطانیہ کے نیشنل کرائم ایجنسی نے کی تھی جس نے بعد میں اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت کو اس جرم سے آگاہ کیا تھا۔
گزشتہ سال یکم دسمبر کو نیب کی جانب سے دائر کردہ ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ ملزمان کو وضاحت دینے اور معلومات فراہم کرنے کے متعدد مواقع فراہم کیے گئے لیکن انہوں نے جان بوجھ کر بد نیتی کے ساتھ کسی نہ کسی بہانے سے معلومات فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔
مزید برآں، ان کے جوابات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے پاس اپنے دفاع میں مذکورہ الزامات کو رد کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے، اس طرح ان سب نے قومی احتساب آرڈیننس کے تحت جرم کا ارتکاب کیا۔
اس میں مزید کہا گیا تھا کہ اب تک کی تحقیقاتی کارروائیوں اور نتائج سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ملزمان نے ایک دوسرے کی ملی بھگت سے بدعنوانی کے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔
ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے ریاست کے لیے مختص فنڈز کی غیر قانونی منتقلی میں اہم کردار ادا کیا جس کا فائدہ بالآخر ملک ریاض کو ہوا۔
ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ شہزاد اکبر اور اثاثہ ریکوری یونٹ کے سربراہ نے ریاست کے لیے مختص فنڈز کے غیر قانونی ڈیزائن میں اہم کردار ادا کیا۔
ریفرنس میں بتایا گیا تھا کہ ملک ریاض نے ریاست کے لیے مختص فنڈز کی منتقلی کے لیے دیگر مدعا علیہان کے ساتھ مدد کی اور سازش میں مکمل تعاون کیا۔
اس سلسلے میں بتایا گیا تھا کہ بشریٰ بی بی اور فرحت شہزادی نے بھی غیر قانونی سرگرمیوں میں اہم کردار ادا کیا جبکہ فرحت شہزادی عمران خان اور ان کی اہلیہ کے لیے فرنٹ ویمن کا کردار ادا کرتی تھیں۔
ریفرنس میں کہا گیا کہ 8 مشتبہ افراد کے خلاف کارروائی کرنا منصفانہ اور مناسب ہے کیونکہ ریفرنس کو درست ثابت کرنے کے لیے کافی مجرمانہ شواہد دستیاب ہیں۔
عدالت میں استدعا کی گئی تھی کہ آٹھوں ملزمان پر مقدمہ چلایا جائے اور عدالت یا کسی اور جس کو ریفرنس سونپا گیا ہو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔