اسلام آباد: مسترد کاغذاتِ نامزدگی کیخلاف درخواستیں یکجا، الیکشن کمیشن کو جواب جمع کرانے کا حکم
اسلام آباد ہائی کورٹ میں قائم الیکشن ٹریبونل نے اب تک دائر کی گئی تمام درخواستوں کو یکجا کردیا اور الیکشن کمیشن کو ان تمام درخواستوں پر جمعہ کو جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
’ڈان نیوز‘ کے مطابق کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف پی ٹی آئی کے ایڈووکیٹ نیاز اللہ نیازی، ظفر علی شاہ، شعیب شاہین اور سہیل احمد کی اپیلوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے سماعت کی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے لیگل ٹیم میں ضیغم انیس اور ثمن مامون عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
جسٹس ارباب محمد طاہر نے نیاز اللّٰہ نیازی سے استفسار کیا کہ نیازی صاحب آپ کا کیا مسئلہ ہے ؟
نیاز اللہ نیازی نے جواب دیا کہ میں نے ایک گاڑی لی جو ابھی میرے نام پر ٹرانسفر نہیں ہوئی، گاڑی چونکہ میں خرید چکا ہوں تو میں نے اثاثوں میں ظاہر کردی، آر او کا اعتراض تھا کہ کسی اور گاڑی ڈیکلیئر کر کے مس ڈیکلریشن کی گئی۔
عدالت نے ظفر علی شاہ سے استفسار کیا کہ جی شاہ صاحب، کس بنیاد پر کاغذات مسترد کئے گئے ہیں؟
سید ظفر علی شاہ نے جواب دیا کہ کاغذات نامزدگی پر ایک خانہ ہوتا ہے جس میں اپنی سیاسی جماعت کا نام لکھنا ہوتا ہے، متعلقہ خانے میں واضح لکھا ہے کہ میں تحریکِ انصاف سے ہوں بس۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہاں پر تو کسی گاڑی سے متعلق آر او کا اعتراض ہے، اس پر سید ظفر علی شاہ نے کہا کہ ایک گاڑی جو 3 سال پہلے بیچ چکا ہوں، نئے مالک کے نام ٹرانسفر بھی ہے، 3 سال پہلے بیچی گئی گاڑی سے متعلق اعتراض لگا کر کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ جن کے بلز یا کوئی بھی ادائیگیاں تھیں اُن ادائیگیوں کے لیے آر او وقت دینے کا مجاز تھا، اختیار ہونے کے باوجود اعتراضات دور کرنے کے لیے آر او نے وقت کیوں نہیں دیا؟
عدالت نے حکم دیا کہ آپ کوئی بیان حلفی یا ٹرانسفر لیٹر جمع کروائیں، جمعہ کے لیے نوٹس کردیتے ہیں، جمعہ کو اس کیس کو میرٹ پر سنیں گے۔
دریں اثنا پی ٹی آئی کے متوقع امیدوار سہیل احمد کی جانب سے سردار مصروف و دیگر عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کے کاغذات نامزدگی کیوں مسترد کردیے گئے؟
سہیل احمد کے وکیل نے جواب دیا کہ 2 ماہ پرانا بجلی کا بل جمع نہ ہونے پر کاغذات نامزدگی مسترد کردیے گئے۔
عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسارکیا کہا بل اب جمع کردیا گیا ہے؟ جواب میں انہوں نے عدالت کا آگاہ کیا کہ جی بل جمع کرکے بقایا جات کلئیر کردیے گئے ہیں۔
عدالت نے شعیب شاہین کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اس کیس کو بھی جمعہ کو سب کے ساتھ یکجا کرکے سن لیتے ہیں، ویسے آپ کا مسئلہ کیا ہے؟ شعیب شاہین نے کہا کہ میرے خلاف اثاثہ جات ڈکلیئر نہ کرنے کا اعتراض ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے اپنے اثاثے واضح نہیں کیے؟ شعیب شاہین نے کہا کہ جس پراپرٹی کا بتایا جارہا ہے وہ ابھی میرے نام ٹرانسفر ہی نہیں ہوئی، آر او نے جس پراپرٹی پر اعتراض کیا وہ میں نے کاغذات میں ظاہر کیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کے بقایاجات کس سال کے ہیں؟ شعیب شاہین نے جواب دیا کہ یہ گزشتہ اور اس سال کے بقایاجات ہیں جو ابھی جمع کرائے گئے ہیں، پراپرٹی ٹیکس آن لائن جمع کرائے گیے اور رسید درخواست کے ساتھ جمع ہے، کاغذات نامزدگی جمع کرتے وقت کسی ایک ریٹرننگ افسر نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔
درخواست گزار شعیب شاہین ایڈوکیٹ نے ریٹرننگ افسر کا فیصلہ عدالت کے سامنے پڑھ کر سنایا اور مختلف عدالتی فیصلوں کے بھی حوالے دیے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کے تینوں کاغذات پر ایک ہی اعتراض ہے؟ کیا اسلام آباد کے تینوں حلقوں کا ایک ہی ریٹرننگ افسر ہے؟ اسلام آباد کے ہر حلقے کا الگ الگ ریٹرننگ افسر ہے؟ ان فیصلوں سے تو یوں لگا رہا ہے کہ ایک ہی ریٹرننگ افسر ہے، کیا 62 ون ایف کا اختیار ریٹرننگ افسر کے پاس ہے؟
شعیب شاہین نے جواب دیا کہ 62 ون ایف کا اختیار ریٹرننگ افسر کے پاس بالکل بھی نہیں ہے۔
درخواست گزار شعیب شاہین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کی وکیل ثمن مامون نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے مطابق اگر درخواست گزار کو ٹیکس ریٹرن یا دیگر بقایاجات کا نہیں پتا تو کاغذاتِ نامزدگی مسترد نہیں ہوگی، اگر 6 ماہ سے زائد کے بقایاجات اگر جمع نہیں تو پھر کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہوگی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا یہ سب کچھ الیکشن کمیشن کے فارم میں موجود ہیں؟ اس پر شعیب شاہین ایڈوکیٹ نے کہا کہ کاغذات نامزدگی سے متعلق تمام چیزیں فارم 17 میں موجود ہیں۔
عدالت نے ثمن مامون سے استفسار کیا کہ الیکشن ترمیمی ایکٹ کا آپ کو پتا ہے؟ ثمن مامون نے جواب دیا کہ الیکشن ترمیمی ایکٹ کا مجھے علم ہے مگر میں یہاں اس پر دلائل نہیں دوں گی، درخواست گزار نے 3 سال سے اس پراپرٹی کو اپنی ملکیت ظاہر کردی، درخواست گزار خود کہہ رہے ہیں کہ میں نے خود چیک کیا اور کہا کہ مجھے پتا تھا، اب اگر کوئی 3 سال تک ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کریں گے تو یہ ان کا مسئلہ ہے۔
عدالت نے استفسار کہا کہ کیا الیکشن ایکٹ میں ایسا کوئی قانون ہے کہ ریٹرننگ افسر درخواست گزار کو بقایاجات کلئیر کرنے کے لیے وقت دیں؟ آپ کے پاس آرٹیکل 62 ون ایف کے حوالے سے کوئی عدالتی فیصلہ موجود ہے؟ یعنی ہم یہ کہیں کہ درخواست گزار کو پتہ تھا کہ وہ ٹیکس نادہندہ ہے؟
دریں اثنا جسٹس ارباب محمد طاہر نے اب تک دائر کی گئی تمام درخواستوں کو یکجا کردیا۔
اپلیٹ ٹریبیونل نے ریٹرننگ افسر کے فیصلے کے خلاف تمام اپیلوں پر الیکشن کمیشن کو نوٹسسز جاری کردیے اور الیکشن کمیشن کو آر آوز سے ریکارڈ اور پیراوائز کمنٹس جمع کرنے کی ہدایت کردی۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کو تمام درخواستوں پر جمعہ کو جواب جمع کرانے کا حکم جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت جمعہ (5 جنوری) تک ملتوی کردی۔