• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

لاپتا افراد کا مسئلہ سنجیدہ ہے، مل کر حل نکالنا ہوگا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

شائع January 2, 2024
چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی—فوٹو: ڈان نیوز
چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی—فوٹو: ڈان نیوز

سپریم کورٹ میں لاپتا افراد، جبری گمشدگیوں کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہ بہت ضروری اور اہم کیس ہے، یہ مسئلہ حل ہوگا جب ہم سب مل کر کریں گے، اس مقدمے کو سیاسی نہ بنائیں، سنجیدہ مسئلہ ہے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی براہ راست سماعت کی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز پر لاپتا افراد کیس کے درخواست گزار خوشدل خان ملک روسٹرم پر آگئے، انہوں نے استدعا کی کہ عدالت حکومت کو جبری گمشدہ افراد سے متعلق قانون سازی کا حکم دے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جبری گمشدگیوں سے متعلق کمیشن بنا تو ہوا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کون سا کمیشن بنا ہے؟

خوشدل خان ملک نے کہا کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں لاپتا افراد کمیشن بنایا گیا لیکن اس نے اب تک کچھ نہیں کیا، عدالت حکومت کو نوٹس کر کے پوچھے کہ 50 سال سےلاپتا افراد کے بارے قانون سازی کیوں نہیں کی؟

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ عدالت کیسے پارلیمنٹ کو حکم دے سکتی ہے کہ فلاں قانون سازی کرو؟ آئین کی کون سی شق عدالت کو اجازت دیتی ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم دے؟ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ہم پارلیمان کو یہ حکم نہیں کرسکتے کہ قانون سازی کریں،کل کو آپ ہی ہم پر تنقید کریں گے کہ پارلیمان کو حکم دیا۔

قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ آپ کو میرے چیمبر میں آنے کی ضرورت نہیں، مجھے درخواستگزار کی جانب سے کوئی پٹیشن نہیں ملی، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر 2023 قانون بن گیا ہے، آپ ذرا سی زحمت کریں اس قانون کو پڑھ لیں، اگر آپ کو کوئی ذاتی مسئلہ ہے تو اس کا طریقہ کار الگ ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ عدالت قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی، صرف قانون کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

دریں اثنا اعتزاز احسن کے وکیل شعیب شاہین روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ تو اعتزاز احسن کے وکیل نہیں ہیں۔

شعیب شاہین نے کہا کہ لطیف کھوسہ کا بیٹا گرفتار ہے تو مجھے وکالت نامہ دیا گیا ہے، ہماری درخواست پر اعتراضات عائد کیے گئے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اعتراضات کو خارج کر کے درخواستیں سن رہے ہیں کیونکہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے، میری غیر موجودگی میں کچھ ہوا اور میں نے واپس آتے ہی یہ درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی ہیں۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اعتزازاحسن نے درخواست میں کن تحفظات کا اظہار کیا؟ شعیب شاہین نے جواب دیا کہ لوگوں کی گمشدگی اور پھر ایک طرح سے نمودار ہونے کا نقطہ اُٹھایا گیا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ ہم کیا کریں اپنی استدعا بتائیں؟ شعیب شاہین نے جواب دیا کہ لاپتا افراد کمیشن اپنا کام نہیں کر سکا اور نہ کر سکتا ہے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ یہ کمیشن کب کا ہے تب کس کی حکومت تھی، شعیب شاہین نے جواب دیا کہ 2011 میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران کمیشن بنا۔

اِس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اعتزازاحسن کیا اپنی ہی حکومت کا نوٹیفکیشن معطل کرنا چاہتے ہیں؟ انگریزی کی مثال ہے کہ جب آپ تپش برداشت نہیں کر سکتے تو کچن میں کھڑے نہ ہوں۔

شعیب شاہین نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کمیشن کی اپنی رپورٹ کے مطابق ابھی تک 2200 لوگ لاپتا ہیں، اِس پر جسٹس میاں محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کتنے لوگ بازیاب ہوئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اعتزازاحسن خود پیپلزپارٹی حکومت میں وزیر بھی رہے، شعیب شاہین نے جواب دیا کہ جب کمیشن بنا تب وہ شاید وزیر نہیں تھے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اعتزازاحسن کیا اس وقت بھی پیپلزپارٹی میں ہیں؟ شعیب شاہین نے کہا کہ جی وہ ابھی پیپلزپارٹی میں ہیں۔

مسئلہ یہ ہے جب عہدے پر ہوتے ہیں تو ذمہ داری کوئی نہیں اٹھاتا، چیف جسٹس

دلائل کے دوران شعیب شاہین نے شیخ رشید، صداقت عباسی اور دیگر کی گمشدگیوں کا معاملہ اُٹھا دیا۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ سب لوگ خود ہمارے سامنے درخواست گزار بنے ہیں؟ کیا یہ سب وہ لوگ ہیں جو خود وسائل نہیں رکھتے کہ عدالت آسکیں؟

قاضی فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیے کہ آپ اس معاملے کو سیاسی بنانا چاہتے ہیں تو یہ فورم نہیں ہے، جو شخص دھرنا کیس میں نظرثانی لا سکتا ہے کیا اپنا کیس نہیں لگا سکتا، کل اگر شیخ رشید کہہ دیں کہ انہیں کوئی مسئلہ نہیں، شعیب شاہین کون ہیں میرا نام لینے والا؟

شعیب شاہین نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ‏شیریں مزاری نے اس معاملے پر بل پیش کیا جو غائب ہو گیا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ شیریں مزاری کا لاپتا افراد سے متعلق بل اگر سینیٹ سے غائب کیاگیا تھا تو کیا شیریں مزاری نے استعفی دیا تھا، شیخ رشید خود کتنی بار وزیر رہ چکے؟ کیا آپ شیخ رشید کو معصوم لوگوں کی کیٹگری میں رکھیں گے؟ مسئلہ یہ ہے کہ جب سب عہدے پر ہوتے ہیں تو ذمہ داری کوئی نہیں اٹھاتا۔

چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ بل کیا سینیٹ سے غائب ہوا تھا؟ چیئرمین سینیٹ کون ہے؟ کس کے ووٹ سے بنے تھے؟

شعیب شاہین نے جواب دیا کہ سینیٹرز کے ووٹ سے صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ بنے، اس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ نام لیں کہ کس پارٹی کے ووٹ سے بنے تھے۔

شعیب شاہین نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے اتحاد سے وہ چیٸرمین سینیٹ بنے تھے، اس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ کی پارٹی کے ووٹ سے بنے چیئرمین سینیٹ نے آپ کا بل گم کردیا، کیا آپ نے اس پر انہیں ہٹانے کی درخواست کی؟ آپ نے چیئرمین سینیٹ پر ایک سنجیدہ الزام لگایا۔

شعیب شاہین نے کہا میں نے درخواست میں اس معاملے پر کوئی استدعا نہیں کی، یہ سارا واقعہ ایک بیک گراونڈ کے طور پر لکھا ہے، اس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے بل غائب ہونے کا ذکر کیا توپھر صادق سنجرانی کو فریق تو بنایا۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ فرخ حبیب، عثمان ڈار، صداقت عباسی یہ لوگ کون ہیں؟ کیا اس بات پر رنجیدہ ہیں یہ پی ٹی آئی چھوڑ گئے؟ کیا ہم انہیں یہ کہیں کہ واپس پی ٹی آئی میں آجائیں؟

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ تمام لاپتا افراد نے کیا واپس آکر بتایا کہ وہ اغوا ہوئے تھے؟ جن لوگوں کو اغوا یا لاپتا کیا گیا انہوں نے تو کبھی بیان نہیں دیا کہ فلاں نے ہمیں اغوا کیا بلکہ انہوں نے تو کہا کہ چلہ کاٹنے گئے تھے۔

کیس سنجیدہ نوعیت کا ہے، عدالت کا مذاق بنانے کی اجازت نہیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یا تو کسی کو اعتزاز احسن کے سامنے اٹھایا گیا ہو تو وہ بات کرے، یا کوئی خود آکر کہے مجھے اغوا کیا گیا تھا تو ہم سنیں، آپ ان کی جگہ کیسے بات کرسکتے ہیں؟ شعیب شاہین کیا اپ ان کے گواہ ہیں؟

شعیب شاہین نے جواب دیا کہ پورا پاکستان گواہ ہے، اس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ ایسے ڈائیلاگ نہ بولیں، آپ نے پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ن) کا ذکر نہیں کیا، آپ کی پوری درخواست ایک سیاسی جماعت کے گرد گھومتی ہے، آرٹیکل 184 (3) کے تحت ایک سیاسی مسئلے کو سنیں؟

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیے کہ آپ نے صرف ایک پارٹی کے لوگوں کا ذکر کیا یہ سب پارٹی چھوڑ گئے، اس کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں، ہم اس معاملے کو بہت سنجیدہ لینا چاہتے ہیں، سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہ کریں، لاپتا افراد کا کیس سنجیدہ نوعیت کا ہے، عدالت کا مذاق بنانے کی اجازت نہیں دیں گے، ‏پی ٹی آئی کے مبینہ گمشدہ افراد بااثر ہیں کچھ تو واپس آچکے ہیں۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ نے عمران ریاض کا ذکر بھی کیا، یہ کون ہے؟ کیا عمران ریاض اب بھی لاپتا ہے؟

شعیب شاہین نے جواب دیا کہ اب لاپتا نہیں مگر جب گھر واپس آئے تو حالت غیر تھی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عمران ریاض اثرورسوخ والے نہیں؟ کیا مطیع اللہ جان اغوا نہیں ہوئے تھے؟ آپ مطیع اللہ جان اور اسد طور کا نام شامل کیوں نہیں کرتے، آپ ان لوگوں کا نام لے رہے ہیں،جو اس بات پر کھڑے ہی نہیں کہ وہ اغوا ہوئے، مطیع اللہ جان اور اسد طور نے تو نہیں کہا کہ وہ شمالی علاقہ جات گئے۔

شعیب شاہین نے کہا کہ میں مطیع اللہ جان کے کیس میں پیش ہوا تھا، بلوچ لاپتا افراد کا معاملہ بھی ہم نے درخواست میں اٹھایا ہے، تب بھی ظلم ہوا تھا مذمت کرتا ہوں، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اب آپ مذمت کر رہے ہیں جب آپ کے ساتھ بھی ہو رہا ہے؟

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ جن 2 صحافیوں کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ کسی جماعت سے وابستگی نہیں رکھتے، یہ 2 صحافی آزاد تصور کیے جاتے ہیں، اگر آپ بلا تفریق سب کے نام شامل کرتے تو آپ کی درخواست جاندار ہوتی، لاپتا افراد سے متعلق دھرنا چل رہا ہے اس کا ذکر درخواست میں کیوں نہیں کیا؟

شعیب شاہین نے کہا کہ میری درخواست پہلے کی ہے، پولیس نے بلوچ مظاہرین کے ساتھ ظلم کیا، بلوچ مظاہرین کا کیس بھی آپ کے سامنے رکھوں گا۔

چیف جسٹس فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ایک اور درخواست دائر کرنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ مفروضوں پر کارروائی نہیں کر سکتے، بلوچ مظاہرین سے متعلق درخواست دائر کریں، ۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ ایک اور ضروری کیس ہے، کیوں نہ اس کو کل دوبارہ سنا جائے، کل ساڑھے 11 بجے اس کو دوبارہ سن لیتے ہیں۔

شعیب شاہین سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہ بہت ضروری اور اہم کیس ہے، یہ مسئلہ حل ہوگا جب ہم سب مل کر کریں گے، اس مقدمے کو سیاسی نہ بنائیں، لاپتا افراد کا مسئلہ سنجیدہ ہے، سینٹ آج بھی موجود ہے، آپ وہاں بھی جاسکتے ہیں،

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اعتزاز احسن کی درخواست میں سیاست جھلک رہی ہے، سب ذمہ داری قبول کریں، پاکستان کو اندرونی طور پر مضبوط کرنا ہے، اب اس مسئلے کا حل نکالنا ہے۔

دریں اثنا عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی، آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل آف پاکستان کو بھی لاپتا افراد سے متعلق دلائل کے لیے طلب کرلیا گیا۔

یاد رہے کہ سینیئر وکیل اعتزاز احسن سمیت متعدد درخواست گزاروں نے جبری گمشدگیوں کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی تھیں۔

گزشتہ روز یکم جنوری کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں لاپتا افراد و جبری گمشدگیوں کے خلاف کیس آج سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024