عام انتخابات: 3 ہزار 200 سے زائد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد
آئندہ ماہ 8 فروری کو عام انتخابات کے انعقاد کے لیے مقرر ریٹرننگ افسران (آر اوز) نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے ملک بھر سے امیدواروں کی جانب سے جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی میں سے تقریباً 12.5 فیصد کو مسترد کر دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ریٹرننگ افسران کی جانب سے منظور اور مسترد کیے گئے کاغذات نامزدگی کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعدادوشمار کے جائزے سے پتا چلتا ہے کہ تقریباً ہر 8 میں سے ایک امیدوار کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے۔
قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 859 جنرل نشستوں کے لیے مجموعی طور پر 25 ہزار 951 کاغذات نامزدگی جمع کروائے گئے جن میں سے 3 ہزار 240 (12.49 فیصد) کو آر اوز نے مسترد کر دیا۔
قومی اسمبلی کی 266 جنرل نشستوں کے لیے جمع کرائے گئے کُل 7 ہزار 473 کاغذات نامزدگی میں سے ایک ہزار 24 (13.70 فیصد) کاغذات مسترد کر دیے گئے، اس طرح اب قومی اسمبلی کے حلقوں کے لیے انتخابی میدان میں 6 ہزار 94 مرد اور 355 خواتین میں رہ گئی ہیں۔
تاہم یہ صورت حال تبدیل ہونے کا امکان ہے کیونکہ کاغذات نامزدگی منظور یا مسترد ہونے کے خلاف اپیلیں دائر کرنے کا عمل گزشتہ روز (یکم جنوری) سے شروع ہوچکا اور 3 جنوری تک جاری رہے گا، اس کے نتیجے میں کچھ امیدوار انتخابی میدان میں واپس آ سکتے ہیں۔
کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کا سب سے زیادہ تناسب (45 فیصد) وفاقی دارالحکومت میں دیکھا گیا جہاں کُل 209 کاغذات نامزدگی میں سے 93 مسترد ہوگئے۔
صوبوں میں قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں کے لیے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کا سب سے زیادہ تناسب بلوچستان (14.58 فیصد) میں سرفہرست رہا جہاں جمع کرائے گئے کُل 631 کاغذاتِ نامزدگی میں سے 92 کو آر اوز نے مسترد کر دیا۔
پنجاب میں قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر 3 ہزار 621 کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے گئے جن میں سے 521 (14.39 فیصد) مسترد کر دیے گئے۔
خیبرپختونخوا میں کُل ایک ہزار 331 کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے جن میں سے 152 (11.42 فیصد) مسترد ہوگئے، سندھ میں کُل ایک ہزار 681 کاغذات نامزدگی جمع کروائے گئے جن میں سے 166 (9.88 فیصد) مسترد ہوگئے۔
صوبائی اسمبلیاں
چاروں صوبائی اسمبلیوں کی 593 نشستوں کے لیے 18 ہزار 478 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جن میں سے 2 ہزار 216 (11.99 فیصد) مسترد کردیے گئے۔
صوبائی اسمبلیوں کی جنرل نشستوں کے لیے جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی کی بات کریں تو بلوچستان میں کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کی شرح سب سے زیادہ رہی۔
بلوچستان میں کُل ایک ہزار 788 کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے جن میں سے 386 (21.59 فیصد) مسترد کر دیے گئے، سندھ میں 4 ہزار 294 کاغذات نامزدگی جمع کروائے گئے جن میں سے کُل 520 (12.11 فیصد) کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے۔
خیبرپختونخوا میں 3 ہزار 461 کاغذات نامزدگی میں سے 367 (10.60 فیصد) اور پنجاب میں 8 ہزار 935 کاغذات نامزدگی میں سے 943 (10.55 فیصد) مسترد کردیے گئے۔
کاغزات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی جنرل نشستوں کے لیے انتخابی میدان میں 22 ہزار 711 امیدوار رہ گئے، ان میں قومی اسمبلی کے لیے 6 ہزار 449 اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے 16 ہزار 262 امیدوار شامل ہیں۔
آر اوز نے صبوائی اسمبلیوں کے لیے 15 ہزار 590 مرد اور 672 خواتین امیدواروں کے کاغذات نامزدگیوں کو منظور کیا اور ان کی کُل تعداد 16 ہزار 262 بنتی ہے۔
لہٰذا کُل 21 ہزار 684 مرد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کیے گئے، جن میں قومی اسمبلی کے لیے 6 ہزار 94 امیدوار شامل ہیں، اب مجموعی طور پر ایک ہزار 27 خواتین امیدوار انتخابی میدان میں موجود ہیں، ان میں قومی اسمبلی کے لیے 355 اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے 672 خواتین امیدوار شامل ہیں۔
اپیلٹ ٹربیونلز
قانون کے تحت 8 فروری کے انتخابات کے لیے جن افراد کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے گئے ہیں انہیں ممکنہ ریلیف کے لیے وفاقی دارالحکومت اور چاروں صوبوں میں قائم کیے گئے اپیلٹ ٹربیونلز سے رجوع کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کا تناسب 2018 کے عام انتخابات سے تھوڑا زیادہ ہے لیکن 2013 کے عام انتخابات سے کم ہے، 2018 اور 2013 میں کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے عمل کے دوران بالترتیب 10.4 فیصد اور 14.6 فیصد کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے گئے تھے۔
اگرچہ 2018 میں منظور یا مسترد ہونے والے کاغذات نامزدگیوں کی تفصیلات الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر دستیاب نہیں ہیں لیکن 2013 کے انتخابات کے حوالے سے ایک رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ مسترد شدہ کاغذات نامزدگیوں کے تناسب کے لحاظ سے سندھ سرفہرست تھا، قومی اور صوبائی اسمبلی دونوں نشستوں کے لیے بالترتیب یہ شرح 19.33 فیصد اور 20.47 فیصد تھی۔