بلوچ لانگ مارچ: مظاہرین کا پولیس کی موجودگی میں ’نامعلوم افراد‘ کی جانب سے ہراساں کرنے کا الزام
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خاتمے کا مطالبہ کرنے والے بلوچ مظاہرین نے شکایت کی ہے کہ اسلام آباد میں دھرنے کے دوران دارالحکومت کی پولیس کی موجودگی کے باوجود انہیں نامعلوم افراد کی جانب سے مبینہ طور پر ہراساں کیا جا رہا ہے۔
یہ الزامات اسلام آباد میں بلوچ مظاہرین کے اِس لانگ مارچ کا اہتمام کرنے والی بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) اور اِس تحریک سے وابستہ کئی شخصیات نے لگائے ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کہا کہ ’نقاب پوش افراد‘ سفید ٹویوٹا ویگو پر آئے اور اسپیکر ساتھ لے کر فرار ہو گئے، کمیٹی نے اس واقعے کو اسلام آباد انتظامیہ اور ریاست کا ’شرمناک اقدام‘ قرار دیا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے مزید کہا کہ اسلام آباد پولیس اور ریاست کو پرامن بلوچ مظاہرین کو ہراساں کرنا بند کرنا چاہیے۔
بعدازاں ایک اور پوسٹ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کہا کہ رات سوا 3 بجے ہمارے ساؤنڈ سسٹم کو سادہ لباس میں ملبوس ’نامعلوم افراد‘ نے پولیس اور سی سی ٹی وی کیمروں کے باوجود چوری کر لیا۔
لانگ مارچ کے منتظمین میں سے ایک ڈاکٹر مہرنگ بلوچ نے بھی یہی الزام عائد کیا، اُن کی طرف سے شیئر کی گئی فوٹیج میں جائے وقوع پر موجود اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں کو دیکھا گیا۔
ایک اور منتظم سمیع دین بلوچ نے بھی کچھ اسی طرح کے الزامات عائد کیے۔
معروف وکیل اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم سماجی کارکن جبران ناصر نے مبینہ واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ افسوس اور شرم کا مقام کے ہمار ’محافظوں‘ کو ہم ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے بھی دیکھنا تھا۔
اسلام آباد پولیس نے تاحال اس معاملے پر باضابطہ طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ انہوں نے دھرنا کیمپ کا دورہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ یہ ایک تکلیف دہ اور دل کو چھونے والا تجربہ تھا، بہت سے خاندان اب بھی اپنے لاپتا عزیز و اقارب کو تلاش کر رہے ہیں۔