• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل، پی ٹی آئی کو ’بلے‘ کا نشان واپس مل گیا

شائع December 26, 2023
— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے ’بلے‘ کا نشان واپس لینے کا فیصلہ معطل کردیا۔

پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس کامران حیات میاں خیل نے پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے انٹراپارٹی انتخابات سےمتعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر علی ظفر اور بیرسٹر علی گوہر نے درخواست پر دلائل دیے، بیرسٹر علی ظفر نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا انٹراپارٹی انتخابات کے حوالے سے فیصلے کا اختیار ہی نہیں ہے، قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کو تمام تر دستاویز فراہم کردی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کا پہلا بڑا نقصان یہ ہوا کہ پی ٹی آئی کو بلے کا نشان نہیں مل سکے گا، اس فیصلے سے پی ٹی آئی 8 فروری کے انتخابات میں حصہ بھی نہیں لے سکے گی۔

بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے کہ نشان کے بغیر ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت انتخابات سے باہرکی گئی، الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کے ساتھ ایسا سلوک کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، آرٹیکل 17 کے تحت سیاسی جماعت کا انتخابی نشان کی فراہمی آئینی حق ہے، دنیا میں کہیں بھی ایسا قانون نہیں کہ جہاں الیکشن کمیشن اپیلیٹ کورٹ بن جا ئے۔

بیرسٹر علی ظفر نے انٹر پارٹی الیکشن سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے 8 لاکھ سے زائد ممبرز ہیں اور کسی نے سوال نہیں اٹھایا، جس پر جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس آنے والے درخواست گزار کون تھے۔

بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ عام لوگ تھے، پی ٹی آئی کا حصہ نہیں، سول کورٹ میں مناسب ٹرائل کے بغیر ایسے کیسز میں فیصلہ نہیں دیا جاسکتا۔

بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ عمر ایوب سیکریٹری جنرل نہیں اس لیے وہ تعیناتی نہیں کرسکتے، اگر عام انتخابات میں بھی کسی کی تعیناتی غلط ہو تب بھی انتخابات چیلنج نہیں کیے جاسکتے۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کو صرف سپریم کورٹ نکال سکتا ہے،الیکشن کمیشن کمیشن نہیں، جس پر جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ آپ کی پارٹی کے آئین و رولز میں انٹرا پارٹی انتخابات کا کیا طریقہ کار ہے؟

بیرسٹرعلی ظفر نے بتایا کہ پارٹی چیئرمین کا انتخاب خفیہ بیلٹ پر ہوگا، رجسٹرڈ ووٹرز ہی الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں، انٹراپارٹی انتخابات رولزہم نےبنائے ہیں، ہم ہی اپ ڈیٹ کرینگے، الیکشن کمیشن ڈائریکشن نہیں دے سکتا۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ایک طرف ہمیں کہا جاتا ہےکہ 20 دن میں انٹرا پارٹی انتخابات کروائیں اور دوسری جانب اعتراض کررہے ہیں، انٹرا پارٹی کے خلاف 14 لوگوں نے الیکشن کمیشن میں درخواست دی، ایک بھی پارٹی ممبر نہیں تھا۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کو کہا کہ درخواست گزار پی ٹی آئی ممبر شپ کا کوئی ثبوت دیں، اگر انتخابی نشان نہیں ملا تو ہمیں اقلیتی اور خواتین کی مخصوص نشستیں نہیں ملے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ 30 دسمبر اسکروٹنی کا آخری دن ہے، ہمیں نشان الاٹ کیا جائے۔

پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے پانچ منٹ کا وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد الیکشن کمیشن کو درخواست دینے والے جہانگیر کے وکیل نوید اختر نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی نے مقررہ وقت میں انتخابات نہیں کرائے، ہم نے مقررہ وقت میں انتخابات نہ کرانے کی خلاف درخواست دی تھی۔

جس پر جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے 20 دن کا وقت دیا تو آپ کی بات ختم ہوگئی، اب سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس کونسا اختیار ہے کہ وہ پارٹی سرٹیفیکٹ مسترد کرے۔

نوید اختر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے پر الیکشن کمیشن جرمانہ لگا سکتا ہے، جس پر پشاور ہائی کورٹ جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ آپ میرے سوال کا جواب دیں، آپ کبھی ایک اور کبھی دوسری بات کرتے ہیں۔

جسٹس کامران حیات نے کہا کہ جب الیکشن کا اعلان ہو جائے تو کس قانون کے تحت روک رہے ہیں، جس پر نوید اختر ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کی تفصیل فراہم کرنے کے بعد الیکشن کمیشن خود کو مطمئن کرے گا۔

جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ جب چیئرمین اور سیکریٹری ختم ہوجائے تو پھر کیسے انتخابات کرائیں گے؟

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ ڈویژنل بینچ کا کیس ہے، جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیے کہ ہم نے کیس کا فیصلہ نہیں کرنا، آج ہم نے عبوری ریلیف پر فیصلہ کرنا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثنا اللہ نے دلائل دیے کہ انٹرم ریلیف دینے سے لگے گا کہ حتمی فیصلہ بھی دے دیا، جس پر جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیے کہ کل کو اگر ہم کسی فیصلے پر پہنچ جائیں تو پھر پانی سر اوپر گزرا ہوگا۔

ایک آرڈر سے پارٹی کو انتخابات سے نکال دیا گیا، جسٹس کامران حیات

جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ کیا پھر الیکشن کمیشن دوبارہ انتخابات کرائے گا، انہوں نے ریمارکس دیے کہ ایک آرڈر سے پارٹی کو انتخابات سے نکال دیا گیا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پھر اس کے لیے ڈویژنل بینچ تشکیل دیا جائے، یہ ڈویژنل بینچ کا کیس ہے، الیکشن کمیشن خود مختار ادارہ ہے اور ان کے پاس اختیار ہے۔

جسٹس کامران حیات نے کہا کہ آپ بتائیں نا کس قانون کے تحت فیصلہ کیا گیا؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثنا اللہ نے کہا کہ میری بات تحمل سے سن لی جائے، عدالت کی معاونت کروں گا، الیکشن کمیشن اگر پارٹی کو ختم کرے تو ایسی صورت میں سپریم کورٹ جانا ہوگا۔

جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی نے تو سارے کاغذات جمع کئے اور آپ نے جماعتوں کی فہرست میں شامل کیا، اگر کاغذات نہ دیتے اور الیکشن کمیشن نے ختم کیا ہوتا تو تب سپریم کورٹ جاتے۔

’کہاں لکھا ہے، الیکشن کمیشن پارٹی انتخابات تسلیم نہ کرے‘

جسٹس کامران حیات کا مزید کہنا تھا کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ ایک پارٹی انتخابات کرائے اور تفصیل فراہم کرنے کے بعد الیکشن کمیشن اسے تسلیم نہ کرے۔

جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سادہ بات ہے کہ یہ کیس ڈویژنل بینچ کا ہے، ان کی استدعا اور انٹرم ریلیف ایک ہی ہے، کیسے آپ حکم امتناع دے سکتے ہیں؟

جسٹس کامران حیات نے کہا کہ یہ چیف جسٹس فیصلہ کریں گے کہ کب ڈویژنل بینچ کو لگے گا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے دلائل پر مشال یوسفزئی ہنس پڑیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہاں میں مذاق کیے لیے کھڑا ہوں کہ یہ ہنس رہی ہے، آپ انہیں کہیں کہ یہاں سے ’شٹ آف‘ ہوجائے، جس پر جسٹس کامران حیات نے ہدایت دی کہ بی بی آپ سائید پر بیٹھ جائیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سوال اٹھایا کہ ان کو کیا جلدی ہے، انتخابی نشان الاٹ کرنے میں ابھی تو وقت ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثنا اللہ نے کہا کہ میری بات سنی جائے، تحمل سے عدالت کی معاونت کروں گا، الیکشن کمیشن اگر پارٹی کو ختم کرے تو سپریم کورٹ جانا ہوگا۔

جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیےکہ پی ٹی آئی نے کاغذات جمع کرائے، آپ نے فہرست میں شامل کیا، کاغذات نہ دیتے،الیکشن کمیشن نے ختم کیا ہوتا تب سپریم کورٹ جاتے، کہاں لکھا ہے ایک پارٹی تفصیل فراہم کرےاورالیکشن کمیشن تسلیم نہ کرے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ سادہ بات یہ ہے کہ یہ کیس ڈویژنل بینچ کا ہے، ان کی استدعااورانٹرم ریلیف ایک ہے،کیسےحکم امتناع دے سکتے ہیں؟

جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیے کہ یہ چیف جسٹس فیصلہ کریں گےکہ کب ڈویژنل بینچ کو لگے گا، یہ چیف جسٹس فیصلہ کریں گےکہ کب ڈویژنل بینچ لگے گا۔

دریں اثنا عدالت میں پی ٹی آئی کی الیکشن کمیشن کے خلاف درخواست پر دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ فروری میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں، انتخابی نشان الاٹ کرنے کے لیے آخری تاریخ 13 جنوری ہے۔

بعدازاں عدالت نے الیکشن کمیشن سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔

درخواست کا متن

پی ٹی آئی کی جانب سے درخواست بیرسٹر ظفر، علی گوہر، علی امین گنڈا پور، عمر ایوب، منیراحمد بلوچ، ظاہرشاہ اور انور تاج نے جمع کروائی ہے، جس میں الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو غیرقانونی قرار دیا جائے۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات پر سوال اٹھانا ہی غلط تھا، بلے کا نشان لینا بھی غلط ہے، واپس کیا جائے، پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا سرٹیفیکیٹ جاری کیا جائے۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرکے بلے کا نشان بحال کیا جائے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے اور بلے کا انتخابی نشان واپس لینے کے فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں جانے کا فیصلہ کیا تھا۔

22 دسمبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف نے 23 نومبر 2023 کو دیے گئے فیصلے میں کی گئی ہدایات پر عمل نہیں کیا اوہ وہ پی ٹی آئی کے 2019 کے آئین، الیکشن ایکٹ 2017 اور الیکشن رولز 2017 کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشنز کرانے میں ناکام رہیں۔

سنگل بینچ بھی فیصلہ معطل کرسکتا ہے، بیرسٹر گوہر

دریں اثنا، بیرسٹر گوہر نے پشاور ہائی کورٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ میں موسم سرما کی چھٹیاں ہے، سنگل بینچ بھی الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ درخواست میں استدعا کی ہے کہ آج ہی کیس کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے، مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بار بار کہہ چکی ہے کہ سیاسی جماعت کا حق ہے کہ اپنے پارٹی نشان سے الیکشن لڑے۔

بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ اگر ایک پارٹی ایک نشان سے الیکشن نہیں لڑے گی تو 227 مخصوص نشستیں کہاں جائے گی، یہ 25 کروڑ عوام کا مسئلہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس الیکشن کے بعد صدر اور سینٹ کا الیکشن بھی ہونا ہے، ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ تو کیا کچھ بھی نہیں دیا جارہا ہے۔

پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلا تھا اور بلا ہی رہے گا، بابر اعوان

قبل ازیں، آج پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما و سابق وزیر بابر اعوان نے کہا کہ پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلا تھا اور بلا ہی رہے گا۔

ڈان نیوز کے مطابق الیکشن کمیشن کے پی ٹی آئی سے انتخابی نشان واپس لینے کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے بابر اعوان پشاور ہائی کورٹ پہنچے۔

اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ عمران خان پی ٹی آئی کے چیئرمین تھے اور رہیں گے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کر رہے ہیں، سپریم کورٹ میں بھی توہین عدالت کیس دائر کرنے جارہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ الیکشن میں جو بھی رکاوٹ ڈالے گا ان کےخلاف توہین عدالت ہوگا، پنجاب میں پی ٹی آئی کے ساتھ پری پول دھاندلی ہورہی ہے، خواتین کے آنچل کھینچے گئے اور بازوں مروڑے گئے، امیدواروں سے کاغذات نامزدگی تک چھینے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز پی ٹی آئی مرکزی سیکریٹری اطلاعات معظم بٹ نے ڈان ڈاٹ کام سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ کل ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف رٹ دائر کریں گے، پی ٹی آئی کے مرکزی قائدین ہائی کورٹ میں کیس دائر کریں گے۔

انہوں نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ قانونی طور پر ناقص ہے، فیصلے میں نہ انصاف کیا گیا ہے اور نہ کیا جا رہا ہے، الیکشن کمیشن میں درخواست گزاروں نے بد نیتی پر کسی کے کہنے پر درخواستیں دی تھیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024