• KHI: Maghrib 5:45pm Isha 7:04pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:28pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:31pm
  • KHI: Maghrib 5:45pm Isha 7:04pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:28pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:31pm

زیر حراست مظاہرین رہا اور مقدمات ختم کیے جائیں، بلوچ یکجہتی کونسل کا حکومت کو تین روز کا الٹی میٹم

شائع December 24, 2023
پاکستان ٹیلی ویژن کے مطابق بلوچ یکجہتی کونسل اور حکومتی وفد کے درمیان مذاکرات خوشگوار ماحول میں ہوئے— فوٹو بشکریہ پی ٹی وی
پاکستان ٹیلی ویژن کے مطابق بلوچ یکجہتی کونسل اور حکومتی وفد کے درمیان مذاکرات خوشگوار ماحول میں ہوئے— فوٹو بشکریہ پی ٹی وی

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خاتمے کا مطالبہ کرنے والے بلوچ مظاہرین نے حکومت حراست میں لیے گئے تمام مظاہرین کی فوری رہائی اور ان پر عائد الزامات کو ختم کرنے کے لیے تین روز کا الٹی میٹم دیا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے میڈیا کو جاری بیان میں دعویٰ کیا گیا حراست میں لیے گئے 100 سے زائد ارکان کو عدالتوں میں پیش نہیں کیا گیا اور وہ ابھی تک لاپتا ہیں۔

بلوچ یکجہتی کونسل کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا کہ تقریباً 350 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 33 کو ضمانت مل گئی، 250 سے زائد اب بھی جیل میں ہیں اور 100 سے زائد کو ابھی تک عدالت میں پیش نہیں کیا گیا اور وہ اب بھی لاپتا ہیں۔

پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ہم ریاست کو تین دن کا الٹی میٹم جاری کر رہے ہیں کہ پرامن مظاہرین کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آرز واپس لیں اور 100 سے زائد بلوچ طلبا کو رہا کیا جائے جو ابھی تک لاپتا ہیں۔

پریس ریلیز میں خبردار کیا گیا کہ اگر ان تمام گرفتار افراد کو رہا کر کے مقدمات ختم نہ کیے گئے تو مظاہرین انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوں گے جس کے لیے ریاست اور انتظامیہ ذمہ دار ہو گی۔

بلوچ یکجہتی کونسل نے مزید مطالبہ کیا کہ مختلف شہروں میں مظاہرین کے خلاف درج ایف آئی آر بھی ختم کی جائیں۔

بعد ازاں رات گئے نگران وفاقی وزرا مرتضیٰ سولنگی، فواد حسن فواد، گورنر بلوچستان ملک عبدالولی خان کاکڑ اور آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی نے مظاہرین سے مذاکرات کیے۔

پاکستان ٹیلی ویژن سے جاری بیان میں کہا گیا کہ مذاکرات بہت اچھے ماحول میں ہوئے جس میں دونوں فریقین نے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا اور اتوار کو مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔

اس سے قبل بلوچ مظاہرین نے اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے دھرنا دیا تھا اور بلوچ رہنما ڈاکٹر مہارنگ بلوچ نے پریس کانفرنس کے دوران مطالبہ کیا تھا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کمیشن بناتے ہوئے صوبے میں سی ٹی ڈی اور ڈیتھ اسکواڈز کا خاتمہ کیا جائے اور وزارت داخلہ پریس کانفرنس کر کے ان جرائم پر معافی مانگے۔

بلوچ خواتین کی زیرقیادت لانگ مارچ کا آغاز 6 دسمبر کو تربت میں محکمیہ انسدادِ دہشت گردی کے اہلکاروں کے ہاتھوں ایک بلوچ نوجوان کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے بعد شروع ہوا تھا اور بدھ کو یہ مارچ وفاقی دارالحکومت پہنچا تھا۔

تاہم پولیس نے مظاہرین کو نیشنل پریس کلب تک روکنے شہر کی مرکزی شاہراؤں کو بند کردیا تھا اور پھر اسلام آباد پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مختلف علاقوں سے 200 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں، سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کے ساتھ ساتھ وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور صدر مملکت عارف علوی نے بھی ان واقعات کی شدید مذمت کی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 14 نومبر 2024
کارٹون : 13 نومبر 2024