نواز شریف، آصف زرداری، یوسف گیلانی کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس، نیب سے 4 جنوری تک رپورٹ طلب
احتساب عدالت اسلام آباد نے سابق صدر مملکت آصف علی زرداری، سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی سمیت دیگر ملزمان کے خلاف توشہ خانہ سے قیمتی گاڑیاں اور تحائف وصول کرنے سے متعلق ریفرنس میں نیب سے 4 جنوری تک رپورٹ طلب کرلی۔
آصف علی زرداری، نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی سمیت دیگر ملزمان کے خلاف احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سماعت کی۔
نواز شریف کے وکیل قاضی مصباح نے کہا کہ قاضی مصباح برآمدگی کا نوٹس کردیں آئندہ سماعت پر دیکھ لیں ، چھ متفرق درخواستیں ہیں ان کو بھی سن لیں ، نواز شریف شامل تفتیش ہوگئے ہیں، تفتیش کی روشنی میں نیب نے آج رپورٹ جمع کروانی تھی۔
نیب پراسکیوٹر نے کہا کہ ابھی تفتیشی افسر کو رپورٹ جمع کروانے کے لیے وقت درکار ہے، تفتیشی افسر کا تبادلہ ہوگیا تھا ڈائریکٹر بھی تبدیل ہوئے ہیں۔
سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے آج کی حاضری سے استثنیٰ مانگ لیا، وہ انتخابی مہم میں ہونے کی وجہ سے پیش نہ ہوئے، نیب پراسکیوٹر نے کہا کہ آئندہ سماعت پر تفتیشی افسر آجائیں گے، آئندہ سماعت پر رپورٹ جمع کروادیں گے۔
عدالت نے کہا کہ آپ چار دن میں جواب جمع کروا دیں، نیب پراسکیوٹر نے کہا کہ چار دن رپورٹ جمع کروانے کے لیے کافی نہیں ہیں۔
احتساب عدالت نے چار جنوری تک نیب سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
توشہ خانہ ریفرنس
احتساب عدالت میں قومی احتساب بیورو کے دائر کردہ ریفرنس کے مطابق یوسف رضا گیلانی پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف پر غیر قانونی طور پر گاڑیاں الاٹ کرنے کا الزام ہے۔
اس ریفرنس میں اومنی گروپ کے سربراہ خواجہ انور مجید اور خواجہ عبدالغنی مجید کو بھی ملزم نامزد کیا گیا ہے۔
ریفرنس میں کہا گیا کہ آصف زرداری اور نواز شریف نے کاروں کی صرف 15 فیصد قیمت ادا کر کے توشہ خانہ سے گاڑیاں حاصل کیں۔
بیورو نے الزام عائد کیا کہ یوسف رضا گیلانی نے اس سلسلے میں نواز شریف اور آصف زرداری کو سہولت فراہم کی اور تحائف کو قبول کرنے اور ضائع کرنے کے طریقہ کار کو غیر قانونی طور پر نرم کیا۔
ریفرنس میں کہا گیا کہ آصف زرداری نے ستمبر اور اکتوبر 2008 میں متحدہ عرب امارات سے مسلح گاڑیاں (بی ایم ڈبلیو 750 لی ماڈل 2005، لیکسز جیپ ماڈل 2007 اور لیبیا سے بی ایم ڈبلیو 760 لی ماڈل 2008) حاصل کیں۔
مذکورہ ریفرنس کے مطابق وہ فوری طور پر اس کی اطلاع دینے اور کابینہ ٖڈویژن کے توشہ خانہ میں جمع کروانے کے پابند تھے لیکن انہوں نے نہ تو گاڑیوں کے بارے میں مطلع کیا نہ ہی انہیں نکالا گیا۔
نیب ریفرنس میں الزام لگایا گیا کہ سال 2008 میں نواز شریف کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا اس کے باوجود اپریل تا دسمبر 2008 میں انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کوئی درخواست دیے بغیر اپنے فائدے کے لیے کابینہ ڈویژن کے تحت طریقہ کار میں بے ایمانی اور غیر قانونی طور پر نرمی حاصل کی۔
ریفرنس کے مطابق خواجہ انور مجید نے ایم ایس انصاری شوگر ملز لمیٹڈ کے اکاؤنٹس استعمال کرتے ہوئے آواری ٹاور کے نیشنل بینک کے ایک اکاؤنٹ سے 92 لاکھ روپے آصف زرداری کے اکاؤنٹ میں منتقل کیے۔
اس کے علاوہ انہوں نے ایک اکاؤنٹ کے ذریعے آصف زرداری کی جانب سے ایک کروڑ 11 لاکھ 17 ہزار 557 روپے کی ادائیگی کی، ملزم نے اپنی غیر قانونی اسکیم کے سلسلے میں آصف زرداری کے ناجائز فوائد کے لیے مجموی طور پر 2 کروڑ 3 لاکھ 17 ہزار 557 روپے ادا کیے۔
دوسری جانب خواجہ عبدالغنی مجید نے آصف زرداری کو ناجائز فائدہ پہنچانے کے لیے 3 ہزار 716 ملین (371 کروڑ 60 لاکھ) روپے کی خطیر ادائیگیاں کیں۔
نیب نے ان افراد پر بدعنوانی کا جرم کرنے اور نیب قوانین کے تحت واضح کی گئیں کرپٹ پریکٹسز میں ملوث رہنے کا الزام لگایا۔
نیب نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ ان ملزمان پر مقدمہ چلا کر سخت ترین جیل کی سزا دی جائے۔