امریکا: اقلیتوں کو نشانہ بنانے پر بھارت کو خصوصی تشویش والے ممالک کی فہرست میں ڈالنے کا مطالبہ
امریکا میں مذہبی آزادی کے نگران ادارے نے ایک بار پھر بائیڈن انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ بیرون ملک مقیم مذہبی اقلیتوں کو مبینہ طور پر نشانہ بنانے پر امریکی مذہبی آزادی ایکٹ کے تحت بھارت کو خصوصی تشویش والے ممالک کی فہرست میں شامل کرے۔
خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکی کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے بیرون ملک سرگرم سماجی کارکنوں، صحافیوں اور وکلا کی آواز کو دبانے کی حالیہ کوششوں سے مذہبی آزادی کو شدید خطرہ لاحق ہے۔
کمیشن نے ایک بیان میں کہا کہ یو ایس سی آئی آر ایف امریکی محکمہ خارجہ سے درخواست کرتا ہے کہ بھارت کی جانب سے منظم طور پر مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیوں کی وجہ سے بھارت کو خصوصی تشویش والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا جائے۔
یو ایس سی آئی آر ایف کے کمشنر اسٹیفن شنیک نے کینیڈا میں سکھ سماجی کارکن ہردیپ سنگھ نجار کے قتل میں بھارتی حکومت کے مبینہ ملوث ہونے اور امریکا میں سکھ برادری کے ایک اور سماجی رکن گروپتونت سنگھ کو قتل کرنے کی سازش کو ’شدید پریشان کن‘ قرار دیا۔
مین ہٹن میں وفاقی استغاثہ نے رواں ماہ کہا کہ ایک بھارتی شہری نے ایک نامعلوم بھارتی سرکاری ملازم کے ساتھ مل کر نیو یارک شہر کے ایک رہائشی کو قتل کرنے کی سازش کی تھی، جو بھارت میں ایک آزاد سکھ ریاست کی وکالت کرتا تھا، تاہم بھارتی حکومت نے اس سازش میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔
یہ معاملہ بھارت اور بائیڈن انتظامیہ دونوں کے لیے انتہائی حساس بن چکا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے ملک چین کے مدِ مقابل یہ دونوں قریبی تعلقات استوار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
یو ایس سی آئی آر ایف نے کہا کہ اس نے 2020 کے بعد سے ہر سال یہ سفارش کی ہے کہ محکمہ خارجہ بھارت کو خصوصی تشویش والے ممالک کی فہرست میں شامل کرے، یہ 1998 کے امریکی مذہبی آزادی ایکٹ کے تحت ایک درجہ بندی ہے، اس ایکٹ کے تحت پابندیوں یا رعایتوں سمیت متعدد پالیسی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں لیکن یہ اقدامات خودکار نہیں ہیں۔
یو ایس سی آئی آر ایف کے کمشنر ڈیوڈ کری نے کہا کہ بیرون ملک مقیم بھارتی مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے لیے بھارت کی جانب سے اقدامات غیرمعمولی طور پر خطرناک ہیں اور اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
سال 2020 مین جب پہلی بار یہ تجویز سامنے آئی تو بھارت کی وزارت خارجہ نے اسے متعصبانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔