’را کا افسر‘ نریندر مودی کے ناقدین کو نشانہ بنانے کیلئے پروپیگنڈا گروپ چلا رہا ہے، واشنگٹن پوسٹ
واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ناقدین کو نشانہ بنانے کے لیے تنظیم قائم کی گئی اور اسے بھارتی انٹیلیجنس ایجنسی (را) کا ایک افسر چلا رہا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈس انفو لیب نے تفصیلی رپورٹس اور سوشل میڈیا پوسٹ کیں، جس میں امریکا میں مقیم نریندر مودی کے ناقدین کے پیچھے ذاتی تعلقات اور فنڈنگ کے ذرائع کو ظاہر کرنے کا دعوی کیا گیا۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ تنظیم 2020 کے وسط میں بھارتی خفیہ ایجنسی (را) کے انٹیلی جنس افسر لیفٹیننٹ کرنل دبیا ستاپاتھی نے قائم کی۔
واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا کہ دبیا ستاپاتھی نے بھارت کے بارے میں بین الاقوامی تاثرات کو تشکیل دینے کے لیے کام کیا اور انہوں نے بھارت کے حق میں کوریج اور مخالفوں پاکستان اور چین کی تنقیدی کوریج کے حصول کے لیے مغربی صحافیوں سے ملاقات کی۔
اس ادارے میں کام کرنے والے تین افراد کا حوالہ دیتے ہوئے واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا کہ یہ ادارہ ایک خفیہ اثر و رسوخ کا آپریشن چلا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ڈس انفو لیب نے مبینہ طور پر عالمی اسلامی گروپ اور عرب پتی جورج سوروس کی قیادت میں بھارت کو کمزور کرنے کے لیے امریکی حکومتی حکام، محققین، انسانی ہمدردی کے گروہ اور بھارتی-امریکی حقوق کےکارکنان پر اس سازش میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔
ان الزامات کو نریندر مودی کے حمایتی گروہوں نے بڑھایا اور اسے سوشل میڈیا پر شیئر کیا، ان دعوؤں نے بھارت کے مرکزی میڈیا میں بھی اپنی جگہ بنائی اور امریکن کانگریس میں بھی اسے پیش کیا گیا۔
اس ادارے کی سرگرمیاں اس بات کا مظاہرہ کرتی ہیں کہ کیسے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے چلایا جانا والا آن لائن پروپیگنڈا مخالفین کو بدنام کرنے اور مقبول حمایت حاصل کرنے کے ان کے روایتی اور مقامی مقاصد سے آگے بڑھ گیا ہے۔
دوسری جانب، ڈس انفو لیب نے نے کسی بھی حکومتی ادارے یا افسر کے ساتھ کسی بھی قسم کی وابستگی سے انکار کر دیا، سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر جاری ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ امریکی اخبار نے پاکستان کے 2 سال پرانے پروپیگنڈے کو دوبارہ استعمال کیا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اس ادارے نے واشنگٹن سے تعلق رکھنے والی کانگریس میں ڈیموکریٹک نمائندہ اور نریندر مودی کی ناقد پرامیلا جے پال، انسانی حقوق کے کارکنان، صحافیوں اور امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے ممبران کو نشانہ بنایا۔
اپنی ایک رپورٹ میں ادارے نے دعوی کیا کہ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی کمشنر اسلامی گروہ سے متاثر ہیں کیونکہ انہوں نے ایک دفعہ اسلامی لوبیسٹ کے ساتھ فنڈ اکھٹا کرنے والی کمیٹی میں کام کیا تھا، جو مسلمان-امریکی گروہوں کی نمائندگی کرتا تھا۔