• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

’ختم ہوئے کیس کو دوبارہ کیسے دیکھ سکتے ہیں؟‘ ذوالفقار بھٹو صدارتی ریفرنس کی سماعت جنوری تک ملتوی

شائع December 12, 2023
ریفرنس کی سماعت  سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر براہ راست نشر کی جا رہی ہے—فائل فوٹو: ڈان نیوز
ریفرنس کی سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر براہ راست نشر کی جا رہی ہے—فائل فوٹو: ڈان نیوز

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ میں 11 سال بعد براہ راست نشر سماعت ہوئی، جس کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ بھٹو کیس میں فیصلہ سنا چکی اور نظر ثانی بھی خارج ہو چکی، ایک ختم ہوئے کیس کو دوبارہ کیسے دیکھ سکتے ہیں؟

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ نے سابق وزیراعظم سے متعلق ریفرنس کی سماعت کی۔

لارجر بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی بھی شامل ہیں۔

سماعت کے موقع پر سابق صدر آصف زرداری، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو سمیت پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے سماعت کی براہ راست کارروائی کی درخواست منظور کی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کیس آخری بار 2012 میں سنا گیا۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے فریق بننے کی درخواست دے دی، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں بلاول بھٹو کی نمائندگی کروں گا، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو ورثا کے طور پر بھی سن سکتےہیں اور بحیثیت سیاسی جماعت کے بھی۔

عدالت عظمیٰ نے ریفرنس میں پیش ہونے والے وکلا کے نام لکھ لیے، چیف جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ سپریم کورٹ کی کارروائی پہلے پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر کرتے تھے، اب ہماری کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر کاروائی لائیو ہوگی۔

چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کیا کہ آپ کی درخواست آنے سے پہلے ہم نے لائیو نشریات کا فیصلہ کر لیا تھا، صدارتی ریفرنس ابھی بھی برقرار ہے، یہ واپس نہیں کیا گیا، براہ راست کارروائی کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، آج براہ راست کارروائی کا لنک دستیاب ہے۔

احمد رضا قصوری بھی عدالت میں پیش ہوئے، وکیل احمد رضا قصوری نے کہا کہ میرے مؤکل کو بھی سنا جائے، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہر قانونی وارث کا حق ہے کہ اسے سنا جائے، کیس کی سماعت لائیو لنک سے نشر ہو رہی ہے، سوال یہ ہے کہ یہ صدارتی ریفرنس ہے تو کیا حکومت اس کو اب بھی چلانا چاہتی ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے ہدایات ہیں کہ صدارتی ریفرنس کو حکومت چلاناچاہتی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کی کارروائی پہلے پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر کرتے تھے، اب ہماری کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر کارروائی براہ راست ہوگی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ ریفرنس کا ٹائٹل پڑھیں، جس پر اٹارنی جنرل نے ریفرنس پڑھنا شروع کر دیا۔

اٹارنی جنرل نے ریفرنس میں اٹھائے گئے سوالات عدالت کے سامنے رکھے اور دلائل کا آغاز کیا، چیف جسٹس نے کہا کہ کون سے صدر نے یہ ریفرنس بھیجا تھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ریفرنس صدر زرداری نے بھیجا تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کے بعد کتنے صدر آئے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کے بعد دو صدور آ چکے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ کسی صدر نے یہ ریفرنس واپس نہیں لیا، سپریم کورٹ کی جانب سے پہلے ریفرنس مقرر نہ کئے جانے پر افسوس کا اظہار کرتا ہوں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل کے دوران بینچ پر اعتراض کی کوئی درخواست دی گئی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق کئی درخواستیں دی گئی تھی۔

ریفرنس میں جج کے تعصب سے متعلق آصف زرداری کیس 2001 کا حوالہ دیا گیا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل کے دوران بنیچ پر اعتراض کی کوئی درخواست دی گئی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق کئی درخواستیں دی گئی تھی۔

وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ نسیم حسن شاہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں تسلیم کیا ان پر دباؤ تھا، دوسرے انٹرویو میں نسیم شاہ نے کہا مارشل لا والوں کی بات ماننی پڑتی ہے، 2018 میں بھی ریفرنس پر سماعت کیلئے درخواست دائر کی، یہ انٹرویو جیو پر پروگرام جوابدہ میں افتخار احمد کو دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کی کیا افتخار احمد اب بھی جیو میں موجود ہیں، اٹارنی جنرل نے بھی نسیم حسن شاہ کے انٹر ویو کا حوالہ دیا، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ انٹرویو کس کو دیا گیا تھا۔

احمد رضا قصوری روسٹرم پر آئے اور نسیم حسن شاہ کے ایک اخبار میں شائع انٹرویو کا حوالہ دیا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا آپ جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو پر انحصار کریں گے۔

وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ میں انٹرویوز کا ٹرانسکریپٹ اور وہڈیوز پیش کروں گا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نسیم حسن شاہ نے جو بیانات دئے کیا آپ ان پر انحصار کررہے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ دلائل جاری رکھیں، صدراتی ریفرنس کی نمائندگی کس نے کی تھی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایڈوکیٹ بابر اعوان اس وقت صدارتی ریفرنس میں وکیل تھے، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا بابر اعوان کمرہ عدالت میں ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس وقت بابر اعوان عدالت میں نہیں ہیں، احمد رضا قصوری نے کہا کہ میں نے ریفرنس پر تحریری جواب جمع کرایا، میرے جواب پر بابر اعوان غصے میں آگئے اور عدالت کو. مطمئن نہیں کرسکے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پہلے اٹارنی جنرل کو سنیں گے، احمد رضا قصوری دوبارہ روسٹرم پر آگئے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قصوری صاحب پہلے ہمیں اٹارنی جنرل کو سننے دیں، فاروق نائیک نے کہا کہ بابر اعوان کا لائسنس اس وقت معطل ہوگیا تھا، بابر اعوان اس وقت حکومت کی نمائندگی کررہے تھے۔

احمد رضا قصوری نے کہا کہ ریفرنس میں کوئی قانونی سوال نہیں اٹھایا تھا، بابر اعوان بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے تھے، جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا اس میں ضمنی ریفرنس بھی آیا تھا، احمد رضا قصوری نے کہا کہ تو یہ چیزیں تو میں نے دینی تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ وہ دیتے اور صفائی میں آجاتے، ایس ایم ظفر اور مختلف وکلا استعمال کرچکے ہیں، علی احمد کرد صاحب کیا آپ معاونت کریں گے۔

علی احمد کرد نے کہا کہ جی میں معاونت کروگا، چیف جسٹس نے فاروق نائیک اور احمد رضا قصوری سے سوال کیا کہ عدالتی حکم میں توبہ کا تذکرہ کیا گیا، کیا کوئی بتائے گا کیوں؟ کیا وکیل فاروق نائیک اور احمد رضا قصوری بتا سکتے ہیں؟ احمد رضا قصوری نے کہا کہ عدالت کسی عالم کو بلائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے علی احمد کرد، طارق محمود، خالد انور اور مخدوم علی خان کو معاون مقرر کیا تھا، ہم. دیکھیں گے جو عدالتی معاون دستیاب نہیں ان کے متبادل کون ہوں گے۔

‏جسٹس منصور علی شاہ نے ریفرنس پر سوالات اٹھا دیے

سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس میں عدالتی معاونین مقرر کرنے کا فیصلہ کیا، وکیل مخدوم علی خان اور علی احمد کرد نے عدالتی معاونت کی ہامی بھر لی، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کی معاونت کے لیے مشاورت کے بعد مزید نام دیں گے، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس کیس میں کئی وکلا وفات پاچکے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں عدالتی معاونین مقرر کریں گے جن کے ناموں کا فیصلہ بعد میں کرتے ہیں, وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ میں انٹرویوز کا ٹرانسکریٹ اور ویڈیوز پیش کروں گا

مخدوم علی خان اور اعتراز احسن کے معاون وکیل پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ مخدوم علی خان کو معلوم نہیں تھا کہ وہ اس کیس میں ہے یا نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ وہ عدالتی معاون بننے پر کسی کو مجبور نہیں کرسکتے، کیا اعتراز احسن اس کیس میں آئیں گے۔

بیرسٹر اعتراز احسن نے کیس میں عدالتی معاونت سے معذرت کرلی، معاون وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ اعتراز احسن وکیل بھی ہیں، بطور معاون نہیں آئیں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تقریر نہ کریں، ہاں یا نہ میں بتائیں جس پر معاون وکیل نے کہا کہ نہیں وہ نہیں آئیں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ قاضی اشرف بھی اس کیس میں معاون تھے، فاروق ایچ نائیک نے کہا قاضی اشرف تندرست ہیں اور پریکٹس کررہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پولیس سے کیس کا اصل ریکارڈ ملا تھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریکارڈ اصل نہیں ملا، فاروق نائیک نے کہا کہ ریکارڈ کے تین بنڈل آئے تھے۔

‏جسٹس منصور علی شاہ نے ذولفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس پر سوالات اٹھاتے ہوئے فاروق ایچ نائیک کو مخاطب کر کے کہا کہ سپریم کورٹ بھٹو کیس میں فیصلہ سنا چکی اور نظر ثانی بھی خارج ہو چکی، ایک ختم ہوئے کیس کو دوبارہ کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ کس قانون کے تحت عدالت ایک ختم معاملے کو دوبارہ کھولے؟ آئین میں دوسری نظر ثانی کا تصور نہیں ہے، عدالت نے فیصلہ کیا کرنا ہے یہ تو بتائیں؟ کیا جب یہ سارا کیس چلا ملک میں آئین موجود تھا؟۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس وقت ملک میں مارشل لاء تھا، فاروق نائیک نے کہا کہ کیس میں شکایات دائر ہوئی تھی، اس کا ریکارڈ موصول نہیں ہوا تھا، عدالت نے حکم نامے میں رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ کو سارا ریکارڈ فراہم کرنے کا کہا تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جو ٹریبونل بنایا تھا اس کا کیا نام تھا، وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ ٹریبونل نے دیکھنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمات درست تھے یا نہیں، ٹریبونل نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تمام مقدمات کو جعلی قرار دیا تھا، اب اس ٹریبونل کا ریکارڈ کہاں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ چاہتے ہیں کہ یہ ریفرنس کھبی نہ سنا جائے تو اعتراض اٹھاتے رہیں، ہمارے سامنے وہ بات کریں جو سامنے موجود ہے، ایسا کرنا ہے تو ایک درخواست دے دیں کہ کس کس کو احکامات دیے جائیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ دوسری نظر ثانی کے سپریم کورٹ پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں،کیا کل کوئی فریق آ کر پرانا مقدمہ نکلوا سکتا ہے، یہ بہت اہم سوال ہے، کیا ہم آرٹیکل 186 کے تحت کسی عدالتی فیصلے کو دیکھ سکتے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ قانونی سوال کیا ہے، کیا کل صدر مملکت یہ ریفرنس بھیج سکتے ہیں کہ تمام پرانے فیصلوں کو دوبارہ لکھا جائے، پورا ریفرنس تو ٹی وی انٹرویوز کے گرد گھومتا ہے۔

چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوانا شروع کیا جس میں سماعت جنوری تک ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا، عدالت نے کہا کہ عدالتی معاونین کو نوٹس جاری کرکے جواب لیا جائے گا، آرٹیکل 186 کے تحت صدارتی ریفرنس دائر کر دکیا گیا، آخری بار صدارتی ریفرنس 2012 میں سنا گیا، بدقسمتی سے یہ ریفرنس اس کے بعد سنا نہیں گیا اور زیر التوا رہا، بدقسمتی سے یہ ریفرنس اس کے بعد سنا نہیں گیا اور زیر التوا رہا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کی آئندہ سماعت جنوری میں ہوگی، حکمنامے میں کیا گیا ہے کہ فاروق اییچ نائیک نے بلاول بھٹو کی جانب سے فریق بننے کی درخواست دی، فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ ذوالفقار بھٹو کی صرف ایک بیٹی زندہ ہیں۔

عدالت کو بتایا گیا کہ ذولفقار بھٹو کے 8 پوتے پوتیاں،نواسے نواسیاں ہیں، ورثا کی جانب سے جو بھی وکیل کرنا چاہے کر سکتا ہے، بلاول بھٹو کی جانب سے براہ راست نشریات کی بھی درخواست دائر کی گئی، براہ راست نشریات کی درخواست غیر موثر ہو چکی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آئینی معاملات پر بھی اور کریمنل معاملات پر بھی ماہر معاون مقرر کر دیتے ہیں، جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک کو عدالتی معاون بنانے کا فیصلہ کیا گیا، چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ حارث، خالد جاوید خان اور سلمان صفدر کو بھی عدالتی معاون بنالیتے ہیں، کیا کسی کو ان معاونین پر اعتراض ہے؟

احمد رضا قصوری نے رضا ربانی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی معاونین نیوٹرل ہونے چاہییں، چیف جسٹس نے کہا کہ صلاح الدین، زاید ابراہیم ،فیصل صدیقی بھی معاون ہوسکتے ہیں، ذولفقار علی بھٹو کے ورثا اگر اپنا وکیل مقرر کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ریفرنس پر آئندہ سماعت کب رکھیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ سردیوں کی چھٹویوں کے بعد کی تاریخ رکھے ، چیف جسٹس نے کہا کہ اس بار کی چھٹیوں کے بعد ہی رکھیں نا، آخری سماعت کب ہوئی تھی، یہ کیس گیارہ سال بعد مقرر کیوں ہوا۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ جواب آپ نے دینا ہے، احمد رضا قصوری نے سماعت الیکشن کے بعد تک ملتوی کرنے کی استدعا کی، احمد رضا قصوری نے کہا کہ یہ کیس الیکشن کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے، قصوری صاحب اس ریفرنس کے بعد کئی ریفرنس آئیں، اس وقت بھی الیکشن معاملات تھے مگر وہ ریفرنس سنے گئے، اب یہ ریفرنس دیر آئیں درست آئیں پر ہے، جنوری میں آئندہ سماعت ہوگی۔

علی احمد کرد روسٹرم پر آگئے، انہوں نے کہا کہ کئی عدالتی معاونین کا انتقال ہوچکا ہے، کیا عدالت ان کے لیے افسوس کا اظہار نہیں کرے گی؟ چیف جسٹس نے کہا کہ کرد صاحب یہ کیس بھی سنجیدگی کا متقاضی ہے، اسے سنجیدگی سے دیکھنے دیں، آپ نے کوئی بیان دینا ہے تو میڈیا پر جا کردیں ، ہم آئینی معاملات پر بھی اور کریمنل معاملات پر بھی ماہر معاون مقرر کر دیتے ہیں۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل سے پوچھا گیا کیا صدارتی ریفرنس کھبی واپس لیا گیا، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ریفرنس نے پہلے واپس لیا گیا، نہ اب واپس لیا گیا، عدالتی حکم پر اٹارنی جنرل نے ریفرنس پڑھ کر سنایا۔

قبل ازیں عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا کہ صدارتی ریفرنس کی سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یو ٹیوب چینل پر براہ راست نشر کیا جائے گی۔

جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ براہ راست عدالتی کارروائی اس یوٹیوب چینل اور ویب سائٹ پر نشر کی جائے گی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز سابق وزیر خارجہ و چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت براہ راست نشر کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

بلاول بھٹو کی جانب سے درخواست وکیل فاروق ایچ نائیک نے دائر کی، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ صدارتی ریفرنس میرے والد آصف علی زرداری کی جانب سے دائر کیا گیا۔

بلاول بھٹو کی جانب سے مؤقف اپنایا گیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ایک قتل کی سازش کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی، ذوالفقار بھٹو کو پھانسی دے دی گئی جو کہ ملکی تاریخ میں نظام، انصاف کا بدترین زوال تھا۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی لیکن ان کا نظریہ آج بھی زندہ ہے، انہوں نے تمام عمر قانون کی حکمرانی کی جدوجہد کی، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینا پورے عدالتی نظام پر دھبہ ہے۔

صدارتی ریفرنس

یاد رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ میں 11 سال بعد رواں ماہ سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا تھا۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے اپریل 2011 میں صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا، ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اب تک سپریم کورٹ میں 6 سماعتیں ہو چکی ہیں۔

صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو جبکہ آخری سماعت 12 نومبر 2012 کو ہوئی تھی۔

صدارتی ریفرنس پر پہلی 5 سماعتیں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کیں جبکہ آخری سماعت 9 رکنی لارجر بینچ نے کی تھی۔

‏سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس 5 سوالات پر مبنی ہے، صدارتی ریفرنس کا پہلا سوال یہ ہے کہ ذوالفقار بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق مطابق تھا؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟

چوتھے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟ جبکہ پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024