• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

جسٹس مظاہرکے خلاف ریفرنس: جسٹس اعجاز الاحسن کی جوڈیشل کونسل کارروائی میں شمولیت چیلنج

شائع December 6, 2023
سپریم کورٹ میں جسٹس اعجاز الاحسن کی شمولیت کے خلاف یہ آئینی درخواست میاں دائود ایڈووکیٹ نے دائر کی ہے—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
سپریم کورٹ میں جسٹس اعجاز الاحسن کی شمولیت کے خلاف یہ آئینی درخواست میاں دائود ایڈووکیٹ نے دائر کی ہے—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف مس کنڈکٹ کی شکایات سننے والی سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبر جسٹس اعجاز الاحسن کی بطور ممبر کونسل کی کارروائی میں شمولیت کو سپریم کورٹ میں آئینی درخواست کے ذریعے چیلنج کر دیا گیا۔

سپریم کورٹ اسلام آباد میں یہ آئینی درخواست میاں دائود ایڈووکیٹ نے دائر کی ہے جس میں وفاقی حکومت اور سیکریٹری سپریم جوڈیشل کونسل کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست گزار میاں دائود ایڈووکیٹ نے آئینی درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف کرپشن اور مس کنڈکٹ کا ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ہے اور سائل کی شکایت پر جوڈیشل کونسل جسٹس مظاہر نقوی کو دوسرا شوکاز نوٹس جاری کر چکی ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ شوکاز نوٹس میں جسٹس مظاہر نقوی سے تین آڈیو لیکس کی بابت بھی سوال کیا گیا ہے۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ تینوں آڈیو لیکس مقدمات کی بینچ فکسنگ اور غلام محمود ڈوگر کیس کی بابت ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن سپریم کورٹ کے اس بینچ کا حصہ تھے جس نے بینچ فکسنگ کے تحت غلام محمود ڈوگر کا مقدمہ سنا۔

اس میں درخواست گزار نے نشاندہی کی ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن تاحال جسٹس نقوی کے خلاف سماعت کرنیوالی سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبر ہیں، قانونی اور اصولی طور پر غلام محمود ڈوگر کا مقدمہ سننے والا کوئی جج سپریم جوڈیشل کونسل کا ممبر نہیں بن رہ سکتا۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن کا سپریم جوڈیشل کونسل میں ممبر رہنا آئین کے آرٹیکل 10 اے اور 9 کے خلاف ہے اور جسٹس اعجاز الاحسن کا سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ رہنا مفادات کے ٹکراؤ اور شفافیت کے اصول کے خلاف ہے۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ شکایت کنندہ سمیت عوام میں یہ تاثر ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن کونسل میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکیں گے، جسٹس اعجاز الاحسن کا جسٹس نقوی کو شوکاز نوٹس جاری کرنے سے دو مرتبہ اختلاف کرنا جانبداری کے تاثر کو مزید مضبوط کرتا ہے، اس لئے سائل سمیت عوام الناس کو جسٹس اعجاز الاحسن سے کونسل کی کارروائی میں انصاف کی توقع نہ ہے۔

آئینی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ جسٹس اعجاز الاحسن کی سپریم جوڈیشل کونسل میں تاحال شمولیت آئین کے آرٹیکل 10 اے اور 9 کی خلاف ورزی قرار دے۔

آئینی درخواست کے ساتھ سابق سی سی پی او غلام محمود ڈوگر کے مقدمے کی مکمل آرڈر شیٹ اور سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس اعجاز الاحسن پر اعتراضات کی درخواست بھی منسلک کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا نام ایک آڈیو لیک میں سامنے آنے کے بعد ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں متعدد شکایتی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف شکایات لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل اور سوشل میڈیا انفلوئنسر ایڈووکیٹ میاں داؤد، مسلم لیگ (ن) لائرز فورم، پاکستان بار کونسل (پی بی سی)، سندھ بار کونسل اور شہری ایڈووکیٹ غلام مرتضیٰ کی جانب سے دائر کی گئی ہیں۔

ایڈووکیٹ میاں داؤد کے دائر کردہ ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ جج نے اپنے بیٹوں اور بیٹی کی بیرون ملک تعلیم اور ایک تاجر زاہد رفیق سے ’مالی فائدہ‘ حاصل کرنے کے لیے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا، ’جج، پی ٹی آئی اور اس کے رہنما عمران خان کے ساتھ اپنے تعلقات کو کھلے عام ظاہر کرتے ہیں‘، وہ اپنی ذاتی رنجشوں کی وجہ سے دوسری سیاسی جماعتوں کے خلاف خطرناک ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔

شکایت گزار کے مطابق ’سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے نجی گفتگو کے دوران اعتراف کیا ہے کہ جسٹس مظاہر علی نقوی پی ٹی آئی کی حمایت کرتے ہیں‘۔

ساتھ ہی میاں داؤد نے ایک لیک ہونے والی آڈیو گفتگو کا ٹرانسکرپٹ جمع کرایا، جس میں مبینہ طور پر جسٹس مظاہر نقوی اور پرویز الٰہی کے درمیان گفتگو ہوئی تھی۔

یاد رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے 22 نومبر کو سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کو ایک بار پھر شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے پندرہ دن کے اندر جواب داخل اور اپنا دفاع کرنے کی ہدایت کردی تھی۔

اس سے قبل بھی 27 اکتوبر کو سپریم جوڈیشل کونسل نے تین، دو کی اکثریت سے ایک شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جس کا بھی جواب دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔

بعد ازاں 30 نومبر کو جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے جاری کردہ 2 شوکاز نوٹسز سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے انہیں کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

سپریم جوڈیشل کونسل سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف بدانتظامی کے الزامات کی تحقیقات کرنے والا آئینی فورم ہے۔

شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس سردار طارق مسعود، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد امیر بھٹی اور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نعیم اختر افغان نے کیا، تاہم جسٹس اعجاز الاحسن نے اختلاف کیا تھا۔

گزشتہ ہفتے مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری دوسرے شوکاز نوٹس میں لگائے گئے الزامات کو ’جھوٹا‘ اور ’بنا شواہد‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے نوٹس کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کرنے کے علاوہ کیسز کی سماعت کے لیے بینچ مقرر کرنے والی کمیٹی کے اراکین کو ایک خط بھی ارسال کیا تھا۔

اس سے قبل اپنے اعتراضات میں جسٹس مظاہر نقوی نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ ریکارڈ سے یہ بات واضح ہے کہ جس طرح سے شوکاز جاری کرکے ان کے خلاف کارروائی شروع کی گئی ہے وہ آئین میں فراہم کردہ بنیادی حقوق کے منافی اور متصادم ہے۔

مزید یہ کہ 27 اکتوبر 2023 کو ان کی پیشگی رضامندی کے بغیر پریس ریلیز جاری کرنا نہ صرف ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس کی وجہ سے انہیں میڈیا ٹرائل کا نشانہ بھی بنایا گیا، عوام کی نظروں میں ان کی تضحیک کی گئی اور ملامت کا نشانہ بنایا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024