مولانا فضل الرحمن کے ’پُرامن انتخابی ماحول‘ کے مطالبے پر پیپلز پارٹی کی شدید تنقید
پیپلز پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی نے مولانا فضل الرحمن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عوام کی عدالت کے فیصلے سے خوفزدہ لوگ انتخابات نہیں چاہتے۔
فیصل کنڈی نے خیبر پختونخوا گورنر اور مولانا فضل الرحمن کے رشتہ دار حاجی غلام علی کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ خیبر پختونخوا میں مولانا کی حکومت ہے، پتہ نہیں وہ کون سا سازگار ماحول چاہتے ہیں؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ عوامی عدالت کے فیصلے سے خوفزدہ لوگ نہیں چاہتے کہ الیکشن ہوں۔
فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ 2007 میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد بھی پیپلز پارٹی نے انتخابات میں تاخیر پر کی مخالفت کی، ان کی جماعت نے 2013 اور 2018 کے انتخابات میں دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کے خلاف مقابلہ کیا اور 2008، 2013 اور 2018 میں بارودی سرنگوں پر چل کر انتخابی مہم چلائی۔
انہوں نےکہا کہ ملک کے موجودہ مسائل کا واحد حل انتخابات ہیں، چیف جسٹس بروقت انتخابات کو یقینی بنائیں گے اور دعویٰ کیا کہ مخالفین پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری کی مقبولیت سے خوفزدہ ہیں۔
پیپلز پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی کا یہ بیان جے یو آئی (ف) کے سربراہ کے حالیہ بیان کے بعد آیا ہے، جب مولانا فضل الرحمٰن نے ملک بھر میں سیکیورٹی کی خراب صورتحال پر سوالات اٹھائے تھے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے انتخابات کے امکان پر تحفظات کا اظہار کیا ہو، گزشتہ ہفتے لاڑکانہ میں ایک ریلی کے دوران بھی انہوں نے انتخابات کے لیے اپنی پارٹی کی تیاری پر زور دیا لیکن اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے ووٹرز کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے پرامن ماحول کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
منگل کو صحافیوں سے گفتگو کے دوران جے یو آئی(ف) کے سربراہ نے ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھاکہ لاہور میں سب کچھ ٹھیک ہے لیکن ہماری طرف نہیں۔
ان سے پوچھا گیا کہ کیا 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے انعقاد کے لیے حالات سازگار ہیں؟ تو تجربہ کار سیاست دان نے دعویٰ کیا کہ خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں بشمول ٹانک، لکی مروت اور ان کے آبائی شہر، ڈی آئی اے۔ خان میں پولیس کےبجائے نامعلوم مسلح لوگ رات کو گلیوں میں گھومتے ہیں۔
انہوں نے سوال کیا کہ ہمارے کارکن مارے جا رہے ہیں،کیا ایسے حالات میں الیکشن ہو سکتے ہیں؟
انہوں نے سیکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر سوال اٹھاتے ہوئے یہ بھی واضح کیا تھا کہ ان کی پارٹی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تیار ہے اور انہوں نے سرگرمی کے لیے ایک محفوظ اور پرامن ماحول فراہم کیا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ جے یو آئی (ف) پچھلی حکومت میں مسلم لیگ (ن) کی اتحادی تھی اور یہ اتحاد انتخابات کے لیے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی صورت میں جاری رہے گا،فضل الرحمننے پی ٹی آئی کو اس کے حالیہ انٹرا پارٹی انتخابات پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا، اور کہا کہ اس سرگرمی نے واضح کر دیا کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت بھی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کو 2018 میں پی ٹی آئی میں زبردستی شامل کیا گیا انہوں نے اس اعتراف کے ساتھ پارٹی سے علیحدگی اختیار کی کہ ان کو پانچ سال پہلے پی ٹی آئی میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا تھا۔