• KHI: Maghrib 5:50pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:50pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

القادر ٹرسٹ کیس: عمران خان، بشریٰ بی بی سمیت 8 افراد کے خلاف نیب ریفرنس دائر

شائع December 1, 2023
عمران خان اور ان کی اہلیہ سمیت 8 افراد کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
عمران خان اور ان کی اہلیہ سمیت 8 افراد کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

قومی احتساب بیورو (نیب) نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان، ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سمیت 8 افراد کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس میں ریفرنس دائر کر دیا۔

مقدمے میں الزام لگایا گیا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سینکڑوں کنال کی اراضی حاصل کی تاکہ 50 ارب روپے کی رقم کو قانونی حیثیت دی جائے جو پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کے دوران برطانیہ نے پاکستان کو واپس کی تھی۔

مذکورہ مقدمے میں عمران خان کو رواں سال اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا تھا لیکن بعد میں سپریم کورٹ کی جانب سے گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔

پہلے ہی سائفر کیس میں اڈیالہ جیل میں قید پی ٹی آئی سربراہ کو 14 نومبر کو اس کیس میں نیب نے دوبارہ گرفتار کر لیا تھا، اس کے بعد انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجنے سے قبل جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

ریفرنس میں نامزد دیگر افراد میں عمران کی اہلیہ کی قریبی دوست فرحت شہزادی، وزیراعظم کے سابق معاونین مرزا شہزاد اکبر اور زلفی بخاری اور پی ٹی آئی حکومت کے اثاثہ جات کے وصولی یونٹ کے قانونی ماہر ضیا المصطفیٰ نسیم اور احمد ریاض شامل ہیں۔

نیب نے عمران اور دیگر کے خلاف آج اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ریفرنس جمع کرایا جس میں کہا گیا ہے کہ ملزمان کو وضاحت دینے اور معلومات فراہم کرنے کے متعدد مواقع فراہم کیے گئے لیکن انہوں نے جان بوجھ کر بد نیتی کے ساتھ کسی نہ کسی بہانے سے معلومات فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔

مزید برآں، ان کے جوابات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے پاس اپنے دفاع میں مذکورہ الزامات کو رد کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے، اس طرح ان سب نے قومی احتساب آرڈیننس کے تحت جرم کا ارتکاب کیا۔

اس میں مزید کہا گیا کہ اب تک کی تحقیقاتی کارروائیوں اور نتائج سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ملزمان نے ایک دوسرے کی ملی بھگت سے بدعنوانی کے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔

ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے ریاست کے لیے مختص فنڈز کی غیر قانونی منتقلی میں اہم کردار ادا کیا جس کا فائدہ بالآخر ملک ریاض کو ہوا۔

ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ شہزاد اکبر اور اثاثہ ریکوری یونٹ کے سربراہ نے ریاست کے لیے مختص فنڈز کے غیر قانونی ڈیزائن میں اہم کردار ادا کیا۔

ریفرنس میں کہا گیا کہ ملک ریاض نے ریاست کے لیے مختص فنڈز کی منتقلی کے لیے دیگر مدعا علیہان کے ساتھ مدد کی اور سازش میں مکمل تعاون کیا۔

بشریٰ بی بی اور فرحت شہزادی نے بھی غیر قانونی سرگرمیوں میں اہم کردار ادا کیا جبکہ فرحت شہزادی عمران خان اور ان کی اہلیہ کے لیے فرنٹ ویمن کا کردار ادا کرتی تھیں۔

ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ آٹھ مشتبہ افراد کے خلاف کارروائی کرنا منصفانہ اور مناسب ہے کیونکہ ریفرنس کو درست ثابت کرنے کے لیے کافی مجرمانہ شواہد دستیاب ہیں۔

عدالت میں استدعا کی گئی کہ آٹھوں ملزمان پر مقدمہ چلایا جائے اور عدالت یا کسی اور جس کو ریفرنس سونپا گیا ہو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

واضح رہے کہ القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو بھیجے گئے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سیکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔

یہ کیس القادر یونیورسٹی کے لیے زمین کے مبینہ طور پر غیر قانونی حصول اور تعمیر سے متعلق ہے جس میں ملک ریاض اور ان کی فیملی کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے ذریعے 140 ملین پاؤنڈ کی وصولی میں غیر قانونی فائدہ حاصل کیا گیا۔

عمران خان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے طے پانے والے معاہدے سے متعلق حقائق چھپا کر کابینہ کو گمراہ کیا، رقم (140 ملین پاؤنڈ) تصفیہ کے معاہدے کے تحت موصول ہوئی تھی اور اسے قومی خزانے میں جمع کیا جانا تھا لیکن اسے بحریہ ٹاؤن کراچی کے 450 ارب روپے کے واجبات کی وصولی میں ایڈجسٹ کیا گیا۔

رواں سال کے اوائل میں سابق وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے منی لانڈرنگ کیس میں عمران اور ان کی اہلیہ پر بحریہ ٹاؤن کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے 50 ارب روپے اور سینکڑوں کنال اراضی لینے کا الزام لگایا تھا۔

انہوں نے الزام لگایا تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے برطانیہ میں پاکستانی شہری کو 50 ارب روپے غیر قانونی طور پر منتقل کیے، رقم منتقلی کی نشاندہی برطانیہ کے نیشنل کرائم ایجنسی نے کی تھی جس نے بعد میں اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت کو اس جرم سے آگاہ کیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے دعویٰ کیا تھا کہ اس وقت کے وزیراعظم عمران نے سابق معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کو معاملہ حل کرنے کا کام سونپا تھا، شہزاد اکبر نے پورا کیس حل کر دیا اور 50 ارب روپے - جو کہ ریاستی جائیداد تھی اور قومی خزانے سے تعلق رکھتی تھی، اس کو بحریہ ٹاؤن کے پیسوں میں ایڈجسٹ کیا گیا۔

رانا ثنا اللہ کے مطابق بحریہ ٹاؤن نے سیکڑوں ایکڑ زمین القادر ٹرسٹ کو عطیہ کی تھی، معاہدے پر رئیل اسٹیٹ ڈیولپر کے ڈونرز اور عمران کی اہلیہ کے دستخط ہیں۔

انہوں نے کہا کہ غیر منافع بخش تنظیم کے صرف دو ٹرسٹی عمران خان اور ان کی اہلیہ تھے جبکہ مزید 240 کنال اراضی فرح شہزادی کو منتقل کی گئی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 23 نومبر کو بحریہ ٹاؤن سیٹلمنٹ میں سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے نام پر قائم سپریم کورٹ کے بینک اکاؤنٹس میں بھیجے گئے 35 ارب روپے وفاقی حکومت کو منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 24 دسمبر 2024
کارٹون : 23 دسمبر 2024