جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے شوکاز نوٹسز عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیے
سپریم کورٹ آف پاکستان کے حاضر سروس جج جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے جاری کردہ 2 شوکاز نوٹسز سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے انہیں کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی کی جانب سے اپنے وکلا کے توسط سے دائر درخواست میں وفاقی حکومت، صدر مملکت اور سپریم جوڈیشل کونسل کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ جوڈیشل کونسل کے پاس متعلقہ معاملے کی سماعت کا اختیار ہی نہیں ہے، کونسل کی کارروائی درخواست گزار کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا 24 نومبر کا نوٹس کالعدم قرار دیا جائے، سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی دائرہ اختیار سے تجاوز قرار دیتے ہوئے ختم کی جائے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کو ایک بار پھر شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے پندرہ دن کے اندر جواب داخل اور اپنا دفاع کرنے کی ہدایت تھی۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف شکایات میں لگائے گئے الزامات اور شواہد کا مکمل ریکارڈ بھی منسلک کیا تھا تاکہ وہ پندرہ دن میں اپنا جواب جمع کرا دیں۔
سپریم جوڈیشل کونسل سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف بدانتظامی کے الزامات کی تحقیقات کرنے والا آئینی فورم ہے۔
شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس سردار طارق مسعود، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد امیر بھٹی اور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نعیم اختر افغان نے کیا، تاہم جسٹس اعجاز الاحسن نے اختلاف کیا تھا۔
اس سے قبل 27 اکتوبر کو سپریم جوڈیشل کونسل نے تین، دو کی اکثریت سے ایک شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جس کا بھی جواب دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔
جسٹس مظاہر نقوی نے پہلے شوکاز نوٹس پر اپنے اعتراضات میں کہا تھا کہ نوٹس ان پر لگائے اصل الزامات کی وضاحت کرنے میں ناکام رہا کہ وہ کیسے بدانتظامی کے زمرے میں آتے ہیں۔
جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف شکایات لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل اور سوشل میڈیا انفلوئنسر ایڈووکیٹ میاں داؤد، مسلم لیگ (ن) لائرز فورم، پاکستان بار کونسل (پی بی سی)، سندھ بار کونسل اور شہری ایڈووکیٹ غلام مرتضیٰ کی جانب سے دائر کی گئی ہیں۔
اس سے قبل اپنے اعتراضات میں جسٹس مظاہر نقوی نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ ریکارڈ سے یہ بات واضح ہے کہ جس طرح سے شوکاز جاری کرکے ان کے خلاف کارروائی شروع کی گئی ہے وہ آئین میں فراہم کردہ بنیادی حقوق کے منافی اور متصادم ہے۔
مزید یہ کہ 27 اکتوبر 2023 کو ان کی پیشگی رضامندی کے بغیر پریس ریلیز جاری کرنا نہ صرف ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس کی وجہ سے انہیں میڈیا ٹرائل کا نشانہ بھی بنایا گیا، عوام کی نظروں میں ان کی تضحیک کی گئی اور ملامت کا نشانہ بنایا گیا۔
اعتراض میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ شوکاز نوٹس میں اس بات کی نشاندہی نہیں کی گئی کہ ان سے عمومی الزامات کا جواب دینے کا کہا گیا ہے، یا انہیں ان الزامات کا مشترکہ جواب دینا ہے یا ہر شکایت کے ہر ایک الزام کا جواب دینا ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا تھا کہ انہیں دستاویزات فراہم نہ کر کے نہ صرف منصفانہ ٹرائل، قانون کے مساوی تحفظ سے محروم کیا گیا ہے بلکہ اس طرح کے طرز عمل کے باعث سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے رائج، روایتی طریقہ کار اور شفافیت پر سنگین سوال اٹھ گیا ہے۔
اس میں کہا گیا تھا کہ جج کے خلاف کارروائی اس انداز میں کی گئی ہے جو ظاہری طور پر امتیازی ہے، اس لیے یہ آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے۔
اعتراض میں شکایات کو غیر سنجیدہ اور سیاسی طور پر داخل کردہ قرار دیتے ہوئے انہیں خارج کرنے کی درخواست کی گئی۔