• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

امریکا، برطانیہ میں آباد ہونے کے منتظر ہزاروں پناہ گزین تاحال پاکستان میں مقیم

شائع November 28, 2023
امریکا نے اب تک 25 ہزار 351 افغان شہریوں کی ممکنہ آباد کاری کے لیے نشاندہی کی ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
امریکا نے اب تک 25 ہزار 351 افغان شہریوں کی ممکنہ آباد کاری کے لیے نشاندہی کی ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

سفارتی ذرائع نے بتایا ہے کہ 12 ہزار سے زائد افغان مہاجرین امریکا اور برطانیہ میں آباد ہوچکے ہیں جبکہ پاکستان میں موجود مزید ہزاروں مہاجرین بیرون ملک آبادکاری کے لیے تاحال حتمی منظوری کے منتظر ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا ہے کہ امریکا اور برطانیہ افغان شہریوں کی آبادکاری پر غور کر رہے ہیں، جو اُن کو درپیش بحران کے درمیان امید کی کرن پیدا کر رہے ہیں۔

امریکا نے اب تک 25 ہزار 351 افغان شہریوں کی ممکنہ آباد کاری کے لیے نشاندہی کی ہے، جن میں سے 4 ہزار 752 افراد کو امریکا میں پناہ مل چکی ہے، برطانیہ 2 ہزار 825 افغان شہریوں کی آبادکاری پر غور کر رہا ہے جہاں 7 ہزار 934 افراد پہلے ہی آباد ہوچکے ہیں۔

بیرون ملک اِن کی آبادکاری کے اقدامات کا مقصد افغان شہریوں کو تحفظ اور مستحکم زندگی فراہم کرنا ہے جنہیں اپنے وطن میں بےپناہ چیلنجز کا سامنا ہے۔

اس راہ میں چیلنجز تاحال برقرار ہیں مگر کئی افغان شہریوں کی بیرون ملک آبادی کاری ہوچکی ہے اور یہ پیش رفت عالمی برادری کی مشترکہ کوششوں کی عکاسی کرتی ہے، ضرورت مندوں کو پناہ فراہم کرنے کا عزم افغانستان میں انسانی بحران پر اجتماعی ردعمل کا اشارہ دیتا ہے۔

رواں ماہ کے شروع میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے امریکا میں آبادکاری کے لیے پاکستان میں منتظر ہزاروں افغانوں کو یقین دہانی کروائی تھی کہ انہیں پاکستان میں غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے تحت ملک بدر نہیں کیا جائے گا۔

ایک اندازے کے مطابق 2021 میں افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد ایک لاکھ افغان شہری وہاں سے فرار ہوئے تھے، ان میں سے تقریباً 25 ہزار افغان پاکستان میں موجود ہیں اور امریکا منتقل ہونے کی منظوری کے منتظر ہیں۔

ان میں سے اکثر نے افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے سے قبل امریکی فوج یا حکومت، عالمی تنظیموں، امدادی ایجنسیوں، میڈیا یا انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپس کے لیے کام کیا تھا۔

پاکستانی حکام نے کہا ہے کہ انہیں امریکی حکام سے مہاجرین کے ناموں کی فہرست موصول ہوئی ہے۔

گزشتہ ہفتے پاکستان نے مغربی ممالک میں آبادکاری کے خواہاں افغان مہاجرین کے لیے ایک متنازع ’ایگزٹ فیس‘ کا نفاذ کیا، جس پر متعلقہ سفارت کاروں اور اقوام متحدہ کی جانب سے تنقید کی گئی۔

اس اقدام کو حیران کن اور مایوس کن قرار دیا گیا، جس کے مطابق مختلف آبادکاری اسکیموں کے تحت روانگی کے منتظر ہر فرد پر تقریباً 830 ڈالر کی فیس عائد ہوگی۔

تاہم ترجمان وزارت خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ افراد گزشتہ 2 برس سے پاکستان میں مقیم ہیں، انہیں تارکین وطن سمجھا جاتا ہے جن کے پاس ویزے اور دستاویزات ناکافی ہیں۔

ممتاز زہرہ بلوچ نے متعلقہ ممالک پر زور دیا کہ وہ ویزہ اور منظوری کے عمل کو تیز کریں، جس سے ان افراد کی اپنی مطلوبہ منزلوں تک تیزی سے روانگی ممکن ہو سکے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ پناہ گزینوں کی آبادکاری کے لیے مزید تفصیلی معلومات کی ضرورت ہے کیونکہ کچھ مغربی ممالک نے جامع تفصیلات کے بغیر ان کے نام دیے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے ترجمان بابر بلوچ نے کہا کہ ہم حکومتِ پاکستان کے ساتھ’ایگزٹ فیس’ اور ویزہ مدت سے زائد قیام کی فیس ختم کرنے کے لیے بات چیر کررہے ہیں، یو این ایچ سی آر اِن واجبات سے پناہ گزینوں کو استثنیٰ دینے کی وکالت کرتا ہے۔

’یو این ایچ سی آر‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ 46 ہزار 240 افراد پناہ گزینوں جیسی صورتحال میں رہ رہے ہیں، اگست 2021 میں طالبان کے قبضے کے بعد سے تقریباً 6 لاکھ افغان شہری پاکستان آئے۔

پناہ گزین جیسی صورتحال سے مراد وہ کیٹگری ہے جس میں ان لوگوں کو شمار کیا جاتا ہیں جو اپنے ملک سے باہر مقیم ہیں لیکن انہیں ابھی تک پناہ گزین کا درجہ نہیں دیا گیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024