• KHI: Asr 4:10pm Maghrib 5:46pm
  • LHR: Asr 3:28pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:29pm Maghrib 5:07pm
  • KHI: Asr 4:10pm Maghrib 5:46pm
  • LHR: Asr 3:28pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:29pm Maghrib 5:07pm

لاہور: ڈی ایچ اے کار حادثہ کیس: مرکزی ملزم افنان کے والد کی عبوری ضمانت میں توسیع

شائع November 27, 2023
عدالت نے پولیس کو تفتیش مکمل کرنے کی ہدایت کردی —  فوٹو: اسکرین شاٹ
عدالت نے پولیس کو تفتیش مکمل کرنے کی ہدایت کردی — فوٹو: اسکرین شاٹ

لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے ڈیفنس کار حادثے میں 6 افراد کی موت کے مقدمے میں جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں موجود مرکزی ملزم افنان شفقت کے والد شفقت اعوان کی عبوری ضمانت میں 4 دسمبر تک توسیع کردی۔

انسداد دہشت گردی عدالت کے جج عبہر گل نے ملزم شفقت اعوان کی عبوری ضمانت پر سماعت کی، وکیل عرفان حیات باجوہ ایڈووکیٹ شفقت علی کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالت نے پولیس سے استفسار کیا کہ کیا ملزم شفقت اعوان شامل تفتیش ہوچکے ہیں؟ تفتیشی افسر فخر نے جواب دیا کہ جی ہاں وہ شامل تفتیش ہو چکے ہیں اور ابھی سی ڈی آر نکلوا رہے ہیں۔

تفتیشی افسر نے تحقیقات کے لیے مزید مہلت دینے کی استدعا کی، عدالت نے پولیس کی درخواست منظور کرلی، ساتھ ہی عدالت نے پولیس کو تفتیش مکمل کرنے کی ہدایت بھی دی۔

بعد ازاں عدالت نے گرفتار مرکزی ملزم افنان شفقت کے والد شفقت اعوان کی عبوری ضمانت میں 4 دسمبر تک توسیع کر دی۔

’ہم نے کسی کو نہیں دھمکایا‘

انسداد دہشت گردی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شفقت اعوان کا کہنا تھا کہ ہم نے کسی کو دھمکی یا آفر نہیں کی، ہم نے کوئی ایسا کام نہیں کیا، ایک خاندان کے 6 لوگ چلے گئے ہمیں بے حد افسوس ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم متاثرہ خاندان کے ساتھ ہمدردی کے لیے تیار ہیں، وہ تھوڑی جگہ دیں، ہم ان کے غم میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے بچے نے غلطی کی ہے اور ہم اس کی سزا بھگت رہے ہیں، یہ ایک حادثہ تھا اور ہم نے خود کو قانون کے حوالے کردیا ہے، ہمارا فیصلہ قانون کے حساب سے ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ میرا تعلق متوسط طبقے کے گھرانے سے ہے، میں اپنے بچوں کو پڑھا رہا ہوں، میں نے اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے اسکول میں ڈالا ہے، دہشت گرد بنانے کے لیے نہیں۔

شفقت اعوان نے کہا کہ ہم پر دہشت گردی کی دفعات لگا دی گئیں، اس پر میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا شکر گزار ہوں، میں وزیرِ اعلیٰ سے کہنا چاہتا ہوں ہم بھی اس ملک کے شہری ہیں ہم بھی اس ملک کی رعایا ہیں، کم از کم وہ ہمارا مؤقف ہی سن لیتے۔

ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات مکمل ہونے دیں لیکن اس طرح ایک ہی طرف کی بات چلانا اور سفاک قاتل یا سیریل کلر کہنا بالکل غلط ہے۔

انہوں نے شکوہ کیا کہ جس طرح میڈیا میں یہ کیس اچھالا جارہا ہے وہ بالکل غلط ہے، میں پہلی بار آج میڈیا پر بات کر رہا ہوں، میرے میڈیا کے سامنے نہ آنے کی یہ وجہ تھی کہ میں کوئی بھی بات ایسی نہیں کرنا چاہ رہا تھا، جس سے خاندان کو دکھ پہنچے، میں میڈیا سے گزارش کرتا ہوں کہ مرچ مصالحے والی خبریں نہ چلائیں۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کوئی ماں باپ بچوں کو اکیلا نہیں چھوڑتے، اس حادثے کے بعد سے 3،4 ہزار بچے جیل میں ہیں اس کا مطلب ہے کہ یہ ہمارے گھروں میں عموماً ہوتا ہے کہ بچے گاڑی لے کر نکل جاتے ہیں مگر کوئی والد یا والدہ نہیں چاہیں گے کہ ان کا بچہ نکلے اور 6 لوگوں کی جانیں چلی جائیں۔

کیس کا پس منظر

واضح رہے کہ رواں ماہ 12 نومبر کو ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی لاہور میں خوفناک سڑک حادثے میں 2 کمسن بچوں سمیت ایک ہی خاندان کے 6 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔

پولیس کے مطابق ایک نوعمر لڑکا تیز رفتاری سے کار چلا رہا تھا، جس کے نتیجے میں حادثہ پیش آیا اور ایک ہی خاندان کے 6 افراد کی جان چلی گئی جو اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے بعد اپنے گھر واپس جا رہے تھے۔

پولیس نے خاندان کے سربراہ رفاقت علی کی شکایت پر مشتبہ کار سوار افنان شفقت کے خلاف مقدمہ درج کر لیا تھا، جو واقعے کے وقت دوسری کار میں سفر کر رہے تھے۔

ایک عینی شاہد نے بتایا تھا کہ حادثہ اتنا خوفناک تھا کہ جب افنان کی کار ان 6 افراد پر مشتمل خاندان کی کار سے ٹکرائی تو وہ کئی بار پلٹتی گئی اور تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔

رفاقت علی نے کہا تھا کہ انہوں نے اپنے اُن تمام 6 رشتہ داروں کو خون میں لت پت پایا، جن میں سے زیادہ تر افراد موقع پر ہی دم توڑ گئے تھے جبکہ دیگر نے ہسپتال منتقل کیے جانے کے بعد اپنی آخری سانسیں لی۔

پولیس نے جائے وقوع سے افنان شفقت کو گرفتار کر کے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی تھی، بعد ازاں لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے ملزم افنان کو 5 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے سے کردیا تھا، عدالت نے 24 نومبر کو ملزم افنان شفقت کے جسمانی ریمانڈ میں 5 دن کی توسیع کردی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 12 نومبر 2024
کارٹون : 11 نومبر 2024