صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو منصب سے ہٹانے کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر
سپریم کورٹ میں شہری کی جانب سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی پر اختیارات کے غلط استعمال کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں کام کرنے سے روکنے اور عہدے سے ہٹانے کے لیے درخواست دائر کردی۔
سپریم کورٹ میں شہری غلام مرتضیٰ خان نے صدر کے خلاف آئین کے آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت درخواست دائر کی، جس میں صدر مملکت، ان کے سیکریٹری اور وفاقی وزارت قانون کو فریق بنایا گیا ہے۔
ایک شہری غلام مرتضیٰ خان نے صدر مملکت عارف علوی کے خلاف درخواست میں مؤقف اپنایا ہے کہ صدر عارف علوی نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا ، عہدے کی تضحیک کی اور غیر آئینی اقدام کے بھی مرتکب ہوئے ہیں۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ صدر مملکت نے اپنے دفتر کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سیاسی سرگرمیوں کے لیے وقف کر رکھا ہے لہٰذا انہیں کام سے روکا جائے اور منصب سے ہٹادیا جائے۔
انہوں نے مؤقف اپنایا ہے کہ صدر مملکت صرف ایک جماعت کا نہیں بلکہ پوری قوم کا ہوتا ہے لیکن صدر عارف علوی نے اپنی آئینی ذمہ داری سے پہلو تہی کی۔
ملک میں 90 روز کے اندر عام انتخابات کے حوالے سے بھی درخواست میں ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عام انتخابات کی تاریخ دینا صدر کا کام تھا لیکن انہوں نے تاریخ نہیں دی اور غیر قانونی طور پر اسمبلی کی تحلیل کے بھی مرتکب ہوئے ہیں۔
سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت آئین پر عمل دآمد یقینی نہیں بنایا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ عارف علوی نے صدر کے منصب کا غلط استعمال کرتے ہوئے غیر آئینی اقدام کا بھی ارتکاب کیا ہے۔
عدالت عظمیٰ سے عارف علوی کو بطور صدر کام کرنے سے روکنے کی استدعا کرتے ہوئے درخواست میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت کے خلاف آئین اور قانون کی خلاف ورزی کرنے پر کارروائی عمل میں لائی جائے۔
یاد رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو منصب سے ہٹانے کے لیے اس سے قبل رواں برس اپریل میں بھی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔
ایک شہری امتیاز چوہدری نے مؤقف اپنایا تھا کہ صدر مملکت آئین کے مطابق اپنے فرائض سرانجام نہیں دے رہے۔
اس سے قبل ایک شہری نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی اہلیت عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا تھا تاہم جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے مختصر سماعت کے بعد درخواست خارج کردی تھی۔
درخواست میں ڈاکٹر عارف علوی کو آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہل قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی اور مؤقف اختیار کیا گیا کہ عارف علوی کے کاغذات پر میرے 6 اعتراضات تھے، صدارتی الیکشن کے وقت عارف علوی انڈر ٹرائل ملزم تھے۔
صدرمملکت کے خلاف درخواست میں کہا گیا تھا کہ عارف علوی صدارت کے لیے اہلیت نہیں رکھتے تھے، اہلیت نہ رکھنے والے کو صدر بنانے کی وجہ سے ملک اس وقت بحران کا شکار ہے، سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے تھے کہ سیاسی جماعتیں کیا کر رہی ہیں یہ آپ کا مقدمہ نہیں ہے، آپ کے کاغذات نامزدگی پر تائید کنندہ کے دستخط نہیں تھے، آئینی تقاضا ہے تائید کنندہ، تجویز کنندہ رکن مجلس شوریٰ ہونا چاہیے۔