ملک میں سیکیورٹی خدشات پہلے سے زیادہ ہیں، نگران وزیراعظم
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ملک میں سیکیورٹی خدشات پہلے سے زیادہ ہیں، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی لہر آ رہی ہے لیکن ہم اسے کسی سیاسی عمل سے نہیں جوڑنا چاہتے اور ہم 8 فروری کو محفوظ اور شفاف انداز میں انتخابات کے انعقاد کی اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے پرامید ہیں۔
جیو نیوز کے پروگرام ’نیا پاکستان‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ الیکشن کمیشن 8 فروری کو انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے اپنی تیاریاں کر رہا ہے، جہاں جہاں ہمارا تعاون درکار ہے، ہم وہ کردار ادا کریں گے، محفوظ اور شفاف انداز میں اس ذمے داری کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے پرامید ہیں اور عوام اپنا مینڈیٹ جس کے حوالے کرنا چاہتے ہیں وہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں سیکیورٹی خدشات پہلے سے زیادہ ہیں اور بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی لہر آرہی ہے لیکن میں اسے بنیاد بنا کر کسی سیاسی عمل سے جوڑنا نہیں چاہ رہا۔
انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے بہت سنجیدہ چیلنجز درپیش ہیں اور بدقسمتی سے مغربی سرحد پر جس طرح کی صورت حال بنتی جا رہی ہے، اسے آنے والے دنوں میں معاملہ مزید سنگین ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ نگران حکومت کا انتخابات میں کسی جماعت کے لیے ماحول ناسازگار بنانے یا اس کو شرکت سے روکنے کا کوئی ارادہ نہیں، مختلف سیاسی جماعتیں جب انتخابی مہم کے لیے جاتی ہیں تو ایک بیانیہ بناتی ہیں اور اپنے ووٹرز کو بھی راغب کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور کبھی کبھی خود کو مظلوم بنا کر بھی پیش کیا جاتا ہے۔
نگران وزیر اعظم نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ نگران حکومت کسی قسم کی جانب داری یا ایسا کوئی کام کر رہی ہے جس سے کسی ایک پارٹی سے منفی انداز میں امتیازی رویہ رکھا جائے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کو الیکشن کمیشن سے یہ کیوں کہنا پڑا کہ آپ امتیازی سلوک نہ کریں اور لیول پلیئنگ فیلڈ یقینی بنائیں تو اس کے جواب میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ الیکشن کمیشن نے ہمیں مجرم قرار دے دیا ہے اور مجرمانہ غفلت پر کوئی خط لکھ دیا ہے، ملک کے مختلف حصوں سے کمیشن کو شکایات گئی ہوں گی اور انہوں نے یہ درست سمجھا ہو گا کہ نگران حکومت کو خط لکھا جائے اور جہاں جہاں انتظامی اقدامات کی ضرورت ہے اسے یقینی بنایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی سمیت کسی بھی جماعت کو ریلی یا سیاسی مؤقف اختیار کرنے سے نہیں روکا گیا ہے، البتہ 9 مئی کے توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے سلسلے میں چند لوگ مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور ان قوانین کا سامنا کرتے ہوئے جیلوں میں ہیں، ان کے خلاف عدالتی کارروائی چل رہی ہے تو میں وہ نہیں روک سکتا، یہ آئینی اور اخلاقی طور پر میرے اختیار میں نہیں ہے، اگر اس بنیاد پر کوئی کہہ رہا ہے کہ ہم امتیازی سلوک کر رہے ہیں تو وہ کہہ سکتے ہیں لیکن اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ عمران خان صاحب پر سیلیکٹڈ کا الزام ریاستی اداروں کی سپورٹ کی بنیاد پر لگتا تھا، ایسا نہیں تھا کہ ریاست کی سپورٹ وہاں نہیں تھی، پھر شہباز شریف صاحب کی حکومت پر بھی یہی الزامات لگتے تھے، ہم پر بھی یہی الزامات لگتے ہیں کہ ریاست کی سپورٹ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ ریاستی اداروں کی پاکستان کے قومی مفادات کے ایجنڈے کے ساتھ تو سپورٹ رہے گی۔
خصوصی سرمایہ کاری سہولیات کونسل (ایس آئی ایف سی) کے تحت اب تک سرمایہ کاری کی رقم نہ آنے کے سوال پر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ شاید یہ سمجھا جا رہا ہے کہ سارے لوگ اکٹھے ہو کر 70 ارب ڈالر ہمارے اسٹیٹ بینک کے اکاؤنٹ میں رکھ دیں گے اور اس کے بعد آگے کا سفر شروع ہو گا لیکن یہ نہیں سمجھ رہے کہ اس کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے، کیا سی پیک کے منصوبوں کے اعلان کے ساتھ ہی تین مہینے کے اندر 52 ارب ڈالر آ گئے تھے لیکن کسی نے یہ سوال نہیں کیا تھا کہ کیوں اتنا وقت لگ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کو متنازع بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور کیا یہ درست ہو گا کہ اس کے قیام کے دو مہینے کے اندر یہ سوال کیا جائے کہ وہ 100 ارب ڈالر کہاں ہیں۔
نگران وزیراعظم نے کہا کہ اگلے ہفتے کچھ اچھی خبریں سنائی دیں گی اور کویت اور متحدہ عرب امارات سے مفاہمتی یاد داشت پر دستخط کریں گے، اس کے بعد سعودی عرب بھی اس کا حصہ بنے گا۔