سخت ویزا پالیسی کے خلاف احتجاج جاری، چمن بارڈر سے پاک-افغان تجارت چوتھے روز بھی معطل
پاکستان اور افغانستان کے درمیان چمن بارڈر کراسنگ کے ذریعے تجارت مسلسل چوتھے روز بھی معطل رہی، سخت ویزا پالیسی کے خلاف دیے جانے والے دھرنے کے شرکا نے قندھار جانے والی شاہراہ کو مسلسل بند کر رکھا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان آمدورفت کو ’ون-ڈاکیومنٹ رجیم‘ کے تحت ریگولرائز کرنے کے فیصلے کے خلاف ہزاروں تاجر، مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور سول سوسائٹی کے اراکین ایک ماہ سے زائد عرصے سے کوئٹہ-چمن شاہراہ پر دھرنا دے رہے ہیں۔
یہ فیصلہ گزشتہ ماہ نیشنل اپیکس کمیٹی نے لیا تھا، پاکستان نے یکم نومبر کو نئی بارڈر کراسنگ پالیسی کا نفاذ کیا، چمن میں سرحدی حکام نے پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر کسی کو بھی پاک-افغان سرحد عبور کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔
تاجر اتحاد نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی ’ون-ڈاکیومنٹ رجیم‘ کی پالیسی کو واپس لے اور چمن اور افغان ضلع اسپن بولدک کے لوگوں کو اپنے قومی شناختی کارڈ کے ذریعے سرحد عبور کرنے کی اجازت دے۔
مظاہرین نے چمن کی مرکزی شاہراہ کو رکاوٹیں لگا کر بند کر دیا، اور پاکستان-افغانستان کے درمیان فرینڈ شپ گیٹ کے ذریعے ہر قسم کی تجارت معطل کر دی۔
کوئٹہ کے سابق کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور سمیت وفاقی اور بلوچستان حکومتوں کے اعلیٰ حکام نے تاجر اتحاد کی قیادت اور علاقے کے قبائلی عمائدین سے مذاکرات کیے اور انہیں بتایا کہ حکومت نے سرحد پار کرنے کے لیے ’ون-ڈاکیومنٹ رجیم‘ متعارف کروا کر بین الاقوامی سرحدوں کو ریگولرائز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تاہم چمن انتظامیہ سمیت حکام کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کے باوجود کوئی پیش رفت نہ ہوسکی اور شاہراہ مسلسل بند رہی۔
چمن میں کسٹمز حکام نے بھی دونوں ممالک کے درمیان افغان ٹرانزٹ اور دیگر تجارت کی معطلی کی تصدیق کی، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور دیگر سامان سے لدے بڑی تعداد میں ٹرک سرحد کے دونوں جانب کھڑے ہیں اور شاہراہ کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ حکومت کا سرحدی گزرگاہوں کے لیے ’ون-ڈاکیومنٹ رجیم‘ کو واپس لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
حکام نے مزید کہا کہ لوگوں نے چمن اور قلعہ عبداللہ کے دفاتر میں پاسپورٹ کے لیے درخواستیں دینا شروع کر دی ہیں۔