پی ڈی ایم سے وابستہ اراکین پارلیمنٹ کے منصوبوں کیلئے ترقیاتی فنڈز کی غیرمنصفانہ تقسیم
سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے پروگرام (ایس اے پی) کے تحت ارکان پارلیمنٹ کے صوابدیدی اخراجات مالی سال کے ابتدائی 4 ماہ کے دوران کُل وفاقی ترقیاتی اخراجات کے ایک تہائی حصے سے زیادہ رہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ترقیاتی پروگرام کے تحت ارکانِ پارلیمنٹ (جن کے صوابدیدی فنڈز کو سیاسی حمایت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے) کی اسکیموں کے لیے غیر متناسب فنڈنگ اگست میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود جاری رہی، اس سے بالخصوص انتخابی سال کے دوران وسائل کی منصفانہ تقسیم کے حوالے سے تحفظات پیدا ہوتے ہیں۔
پچھلی اسمبلی میں اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت کا تعلق پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) سے تھا، اس لیے ترقیاتی پروگرام کے اخراجات اُن کے منصوبوں کے لیے وقف ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ لگاتار تیسرا سال ہو گا جب ملک میں انفرااسٹرکچر کی بہتری کے منصوبے بھاری کٹوتیوں کی وجہ سے محدود رہیں گے جو پہلے ہی ناکافی فنڈنگ کا شکار ہیں، حتیٰ کہ پارلیمنٹ کی طرف سے مختص فنڈز میں بھی کٹوتیاں کی جائیں گی، گزشتہ برس سیلاب کی وجہ سے ترقیاتی پروگرام متاثر ہوا تھا۔
گزشتہ روز پلاننگ کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ جولائی سے اکتوبر تک کے 4 ماہ میں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) پر 76 ارب روپے کے کُل اخراجات میں سے سب سے بڑا حصہ (یعنی 27 ارب 15 کروڑ روپے) ارکان پارلیمنٹ کی اسکیموں پر خرچ کیا گیا، یہ اخراجات اِس مد میں مختص کیے گئے کُل بجٹ کا تقریباً ایک تہائی، یعنی 90 ارب روپے ہیں۔
پی ڈی ایم حکومت نے اگست کے دوسرے ہفتے میں اپنی مدت ختم ہونے سے قبل مالی سال کے پہلے 3 ہفتوں کے اندر ترقیاتی پروگرام کی اسکیموں کے لیے بجٹ میں مختص کیے گئے 90 ارب روپے میں سے تقریباً 70 فیصد (61 ارب 30 کروڑ روپے) جاری کرنے کی اجازت دی تھی۔
اب تک ترقیاتی پروگرام کے کُل اخراجات میں سے اگست کے آخر تک 14 ارب 40 کروڑ روپے استعمال ہو چکے، یہ نگران حکومت کے تحت اکتوبر کے آخر تک بڑھ کر 27 ارب 15 کروڑ روپے تک پہنچ گئے۔
اس کے برعکس جولائی-اکتوبر میں 26 ارب روپے کا دوسرا سب سے بڑا ’پی ایس ڈی پی‘ خرچ آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور سابق فاٹا کے علاقے جیسے خصوصی علاقوں سے متعلق تھا اور 170 ارب روپے کے بجٹ کا صرف 15 فیصد ہے۔
اس کے برعکس تمام وزارتوں، ڈویژنوں اور کارپوریشنوں کے لیے مجاز تقسیم 74 ارب روپے یا 860 ارب روپے کے سالانہ بجٹ کا صرف 8.6 فیصد تھی، اس میں اُس وقت نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے لیے 37 ارب 40 کروڑ روپے کا ایک بڑا حصہ بھی شامل تھا۔
ترقیاتی پروگرام کے اخراجات کے سوا اگست میں حکومت کی تبدیلی کی وجہ سے بڑھتی ہوئی سود کی ادائیگیوں اور رکاوٹوں کے پیش نظر وفاقی ترقیاتی اخراجات 950 ارب روپے کے سالانہ بجٹ کے مقابلے میں 49 ارب روپے رہے۔
49 ارب روپے کے کل ترقیاتی اخراجات ترقیاتی پروگرام کے علاوہ 860 ارب روپے کے بقیہ سالانہ بجٹ کا محض 5.8 فیصد بنتے ہیں۔
زیر جائزہ 4 مہینوں میں ترقیاتی پروگرام کے اصل اخراجات پی ایس ڈی پی کے کُل اخراجات کے 35 فیصد سے زیادہ رہے جبکہ مجموعی پی ایس ڈی پی بجٹ میں اس کا حصہ 9.5 فیصد رہا۔
سرکاری اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ترقیاتی پروگرام کے اخراجات کے سوا 3 درجن وزارتوں اور ڈویژنوں کے حقیقی ترقیاتی اخراجات صرف 37 ارب روپے تھے جو کہ مختص شدہ 563 ارب روپے کا محض 6.6 فیصد بنتا ہے۔
2 دیگر بڑے شعبوں (این ایچ اے اور پاور کمپنیوں) نے غیر ملکی زرمبادلہ کی نمایاں آمد کے باوجود 11.6 ارب روپے استعمال کیے جو کہ ان کے 212 ارب روپے کے سالانہ بجٹ کا صرف 5.5 فیصد ہے۔
این ایچ اے نے 9.4 ارب روپے (مختص کردہ 156 ارب روپے کا 6 فیصد) خرچ کیے اور پاور کمپنیوں نے 2.25 ارب روپے (55.3 ارب روپے کے بجٹ کا 4 فیصد) خرچ کیے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن صرف 3 ارب 10 کروڑ روپے (اپنے 170 ارب روپے کے سالانہ بجٹ کا 5 فیصد) استعمال کر سکا جبکہ ہاؤسنگ اینڈ ورکس ڈویژن نے 3 ارب 10 کروڑ روپے (اس کے 41 ارب روپے کی مختص رقم کا تقریباً 7.5 فیصد) خرچ کیا۔
ریلوے ڈویژن واحد دوسرا محکمہ ہے جس نے 4 ماہ میں ایک ارب روپے سے زیادہ کا استعمال کیا، اس کے 33 ارب روپے کے سالانہ مختص بجٹ کے مقابلے میں ڈیڑھ ارب روپے خرچ ہوئے۔
جولائی تا اکتوبر کے دوران حکومت نے کُل 301 ارب روپے کی منظوری دی تھی، جس میں 36 وزارتوں اور ڈویژنوں کے لیے 239 ارب روپے اور این ایچ اے اور پاور کمپنیوں کے لیے 61 ارب روپے شامل ہیں۔