• KHI: Zuhr 12:30pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 3:26pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 3:25pm
  • KHI: Zuhr 12:30pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 3:26pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 3:25pm

فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کےخلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر

شائع November 21, 2023
— فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
— فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

وزارت دفاع نے گزشہ روز سپریم کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل (آئی سی اے) دائر کردی جس میں 9 مئی کو ہونے والے پُرتشدد مظاہرے میں مبینہ ملوث ہونے پر 103 شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو آئین کے خلاف قرار دینے کے 23 اکتوبر کے متفقہ فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت دفاع نے سپریم کورٹ سے یہ بھی اپیل کی ہے کہ عدالت انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت زیر التوا ہونے تک 23 اکتوبر کو جاری ہونے والے مختصر حکم پر عمل در آمد معطل کردے۔

سینئر وکیل خواجہ حارث احمد کے توسط سے دائر درخواست میں استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے دائرہ کار سے ان شہریوں کو خارج کر دیا، جو پاکستان آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 (ڈی) ون میں بیان کردہ جرائم کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔

مزید کہا گیا کہ ایسا کرنے سے عدالت نے فوج کی پاکستان کو بیرونی حملوں اور جنگ کے خطروں سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی آئینی ذمہ داری کو پورا کرنے کی صلاحیت کو کم کیا، جو آئین کے آرٹیکل 245 (1) کے خلاف ہے۔

سپریم کورٹ کے سامنے اس حوالے سے پیش ہونے والی یہ چوتھی درخواست ہے، گزشتہ درخواستیں وفاقی حکومت کے ساتھ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی حکومت کی طرف سے دائر کی گئی تھیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 23 اکتوبر کو اس بات پر زور دیا تھا کہ 9 مئی کے فسادات اور فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث ملزمان کے مقدمات اب سے فوجی عدالتوں میں نہیں بلکہ ملک میں موجود مجاز دائرہ اختیار کی فوجداری عدالتوں میں چلائے جائیں گے، جو ایسے جرائم کے سلسلے میں عام یا خصوصی قانون کے تحت قائم کی گئی ہیں۔

انٹرا کورٹ اپیل میں اس بات پر حیرانی ظاہر کی گئی کہ پاکستان آرمی ایکٹ کے تابع کسی بھی شخص کو اپنی ڈیوٹی یا حکومت سے وفاداری پر بہکانے یا بہکانے کی کوشش کرنے یا آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت پاکستان کے دفاع، ہتھیاروں، ملٹری اسٹیبلشمنٹ یا اسٹیشن یا فوجی امور کے کسی کام کے سلسلے میں کسی جرم کا ارتکاب، عام شہریوں کی طرف سے ایسی کارروائیاں نہیں، جن کا مسلح افواج کے ساتھ براہ راست گٹھ جوڑ ہو۔

اس طرح ان جرائم کے ملزم شہری پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت قانونی طور پر قابل ٹرائل ہیں اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر ایف بی علی کیس میں طے شدہ اصول کے مطابق ہے، انٹرا کورٹ اپیل میں دعویٰ کیا گیا ہے، 23 اکتوبر کے مختصر آرڈر میں مادی تفصیلات کا فقدان ہے، اور اس طرح یہ قانون کی نظر میں کوئی حکم نہیں۔

کسی بھی صورت میں سیکشن 2 (ڈی) (ون) اور (ٹو) کے ساتھ پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعہ 59 (4) کو آئین کی خلاف ورزی قرار دینے کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے 23 اکتوبر کو فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستیں منظور کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کو کالعدم قرار دیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 20 دسمبر 2024
کارٹون : 19 دسمبر 2024