چکوال جنسی استحصال کیس: وزیر اعلیٰ پنجاب کا جلد انصاف فراہم کرنے کا عزم
پنجاب کے ضلع چکوال کے مدرسے میں 2 اساتذہ کی جانب سے کم از کم 15 بچوں کے ساتھ مبینہ زیادتی کے انکشاف کے بعد نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے یہ عہد کیا کہ ان کی حکومت متاثرین کو فوری انصاف فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز ایک متاثرہ خاندان سے ملاقات کے دوران محسن نقوی نے کہا کہ ملزمان کو اس گھناؤنے جرم کے لیے سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) ڈاکٹر عثمان انور، ریجنل افسر راولپنڈی سید خرم علی، کمشنر راولپنڈی ڈویژن لیاقت علی چٹھہ، ڈپٹی کمشنر قرۃ العین ملک اور ڈی پی او (ریٹائرڈ) کیپٹن وحید محمود بھی وزیر اعلیٰ پنجاب کے ہمراہ تھے۔
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کا کہنا تھا کہ بچے اور والدین صدمے میں ہیں، کمشنر کو ہدایت دی ہے کہ وہ ان بچوں کی تعلیم کا خیال رکھیں۔
انہوں نے کہا کہ آئی جی پی اور سیکریٹری استغاثہ کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس بھیانک جرم کے مرتکب افراد کو جلد از جلد سزا دی جائے۔
محسن نقوی کا مزید کہنا تھا کہ ہم اس حادثے پر شرمندہ ہیں، لیکن تمام مدارس کو اس معاملے میں ذمہ دار ٹھہرانا غلط ہے، اس مسئلے کے حل کے لیے اصلاحات کرنی چاہئیں، نگران وزیر اعلی نے بتایا کہ ان کی حکومت اس حوالے سے جو کچھ کرسکتی ہے، وہ کرے گی۔
ضلعی انتظامیہ نے اتوار کو مدرسے کو سیل کر دیا۔
ادھر چکوال پولیس نے 2 اساتذہ کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا، ڈی پی او وحید محمود نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک ٹیم تشکیل دے دی ہے۔
جمعہ کو ایک شخص نے اپنے 10 سالہ بیٹے کے ہمراہ ڈی پی او سے ملاقات کی اور کہا کہ ان کے بیٹے سمیت کچھ بچوں کو مدرسے کے 2 اساتذہ نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا، ڈی پی او پولیس ٹیم کے ساتھ جائے وقوع پر پہنچے تو 15 طلبہ نے حملے کی شکایت کی۔
ضلعی ہیڈکوارٹرز ہسپتال کے میڈیا کوآرڈینیٹر ڈاکٹر محمد حلیم نے ڈان کو بتایا کہ 15 طلبہ کو طبی معائنے کے لیے ہسپتال لایا گیا، ان سب کے جسموں پر چاقو اور کاٹنے کے نشانات تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 9 بچوں کے والدین نے اس حقیقت کے باوجود طبی معائنہ جاری رکھنے سے انکار کردیا کہ ان کے بچوں نے جنسی استحصال کی شکایت کی اور ان کے جسموں پر چھری اور کاٹنے کے نشانات بھی موجود تھے۔
ڈی پی او نے ڈان کو بتایا کہ فرانزک سائنس ایجنسی پنجاب نے جائے وقوع کا دورہ کر کے وہاں سے ڈی این اے کے نمونے اکٹھے کر لیے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے چاقو بھی بر آمد کیا ہے، جسے ملزمان بچوں کے جسموں پر نشانات بنانے کے لیے استعمال کرتے تھے، ایف آئی آر کے مطابق ملزمان متاثرہ بچوں کے جسموں پر ’Z‘ لکھتے تھے۔
ڈی پی او نے کہا کہ مدرسے کی انتظامیہ کو ایک مہینے پہلے اس بدسلوکی کے حوالے سے آگاہ کردیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ انتظامیہ نے پولیس کو آگاہ کرنے کے بجائے 2 ملزمان کو ملازمت سے نکال کر معاملے کو خود ہی سلجھا لیا، ڈی پی او کے مطابق اس واقعے میں ملوث ملزمان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے گی۔
ڈی پی او سے ان والدین کے حوالے سے پوچھا گیا جنہوں نے طبی معائنہ کروانے سے منع کردیا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ تمام متاثرین کو تحقیقات میں شامل کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے ڈی ایس پی ساجد گوندل کی زیر قیادت ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے جبکہ میں اور ایس پی آپریشنز اس ٹیم کی نگرانی کریں گے ۔
اس سے قبل پولیس نے بتایا تھا کہ متاثرہ بچوں کی عمریں 9 سے 12 سال کے درمیان ہیں اور ان کے ساتھ جنسی استحصال کم از کم 3 سے 4 ہفتوں سے جاری تھا۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے متاثرہ بچے کے والد نے بتایا کہ میں نے اپنے بچے کو مدرسے میں اس لیے داخل کروایا تھا کیونکہ اسے مشہور نعت خواں بننے کی خواہش تھی۔
دل شکستہ والد نے کہا کہ میں دو ہفتے بعد پھل لے کر اپنے 10 سالہ بیٹے سے ملنے مدرسے گیا، جب میں نے اسے پھل دینے کی کوشش کی تو وہ مجھ سے لپٹ کر رونے لگا۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے استفسار کرنے پر اس نے بتایا کہ 2 اساتذہ نے اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا، مزید طلبہ بھی جمع ہوگئے اور انہوں نے بھی یہی شکایت کی۔
انہوں نے اپنے بڑے بھائی کو اطلاع دی، وہ ڈی پی او کے پاس گئے اور انہیں معاملے سے آگاہ کیا۔
ایف آئی آر کے مطابق دونوں ملزمان نے متاثرہ بچوں کو دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے اس معاملے کے حوالے سے بات کرنے کی ہمت کی تو ان کو سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
متاثرہ بچے کے والد کا کہنا تھا کہ اگر میرا بیٹا مجھے نہیں بتاتا تویہ گھناؤنا جرم کبھی منظر عام پر نہیں آتا۔
ہفتے کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مدرسے کی انتظامیہ نے کہا کہ وہ پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی۔
مدرسے کی انتظامیہ نے بتایا کہ وہ بچوں اور ان کے والدین کے ساتھ کھڑے ہیں۔