• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

نگران حکومتِ سندھ کی ملٹری ٹرائل سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کی تردید

شائع November 18, 2023
ترجمان نگران وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ حکومت سندھ نے سویلینز کی ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے لیے کوئی اپیل دائر نہیں کی—فائل فوٹو: ڈان نیوز
ترجمان نگران وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ حکومت سندھ نے سویلینز کی ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے لیے کوئی اپیل دائر نہیں کی—فائل فوٹو: ڈان نیوز

ترجمان نگران وزیراعلیٰ سندھ نے عام شہریوں کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی تردید کر دی۔

ترجمان نگران وزیراعلیٰ سندھ عبدالرشید چنا نے کہا کہ حکومت سندھ نے سویلینز کی ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے لیے کوئی اپیل دائر نہیں کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ تاثر بے بنیاد ہے کہ حکومت سندھ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز یہ اطلاعات سامنےآئی تھیں کہ حکومتِ سندھ نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت عام شہریوں کے ٹرائل کو ’غیر آئینی‘ قرار دینے کے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی ہے۔

رپورٹس کے مطابق چیف سیکریٹری سندھ کی جانب سے دائر کی گئی اپیل میں آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت آرمی ایکٹ کی دفعات کے خلاف دائر درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر سوال اٹھایا گیا۔

اس میں یہ بھی کہا گیا کہ قانون کی بعض شقوں کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے قائم کی گئی سابقہ نظیروں سے متصادم ہے۔

اپیل کے مطابق یہ درخواستیں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے بعد 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کی جانے والی کارروائی کے جواب میں دائر کی گئی تھیں۔

اپیل میں کہا گیا کہ 9 مئی کے حملے بظاہر بہت مربوط تھے اور ان کا مقصد پاکستان کی مسلح افواج کے مورال کو متاثر کرنا تھا، ان حملوں کا مقصد مسلح افواج کے اندر دراڑ پیدا کرنا اور اس کی کمان اور کنٹرول کو کمزور کرنا تھا۔

اپیل میں مزید کہا گیا کہ حملوں کے نتیجے میں فوجی تنصیبات اور عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا، فوجی جوان اور دیگر اہلکار زخمی بھی ہوئے۔

اپیل میں کہا گیا ہے کہ آئین پرامن مظاہروں کے حق کی ضمانت دیتا ہے لیکن آئین کسی بھی شخص کو تشدد کا راستہ اختیار کرنے، کسی فوجی و دیگر حساس تنصیبات، عمارتوں سمیت املاک کو تباہ کرنے یا نقصان پہنچانے کا حق نہیں دیتا۔

اس میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے مشتبہ افراد کے خلاف ایف آئی آرز درج کیں اور ملزمان کو قانون کے مطابق حراست میں لیا گیا، درخواستیں کورٹ مارشل کے ذریعے بعض ملزمان کے ٹرائل کو چیلنج کرنے کے لیے دائر کی گئی تھیں۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اپیل کنندہ نے سپریم کورٹ سے رہنمائی طلب کی کہ بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی اضافی اقدامات کیے جائیں۔

اپیل میں کہا گیا ہے کہ اپیل کنندہ بنیادی حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے اور کسی بھی طرح سے یہ استدلال نہیں کر رہا کہ 9 اور 10 مئی 2023 کے واقعات کے ملزمان یا کوئی بھی افراد جن پر کورٹ مارشل کے ذریعے مقدمہ چلایا جارہا ہے وہ منصفانہ ٹرائل اور مناسب قانونی کارروائی کے حقدار نہیں ہیں۔

اپیل میں کہا گیا ہے کہ اپیل کنندہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت ہونے والے کورٹ مارشل کو اس عدالت نے متعدد مواقع پر آئین، منصفانہ ٹرائل کے اصولوں اور قانون کے مناسب عمل سے پوری طرح ہم آہنگ قرار دیا ہے۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے 9 مئی کے پرتشدد مظاہروں میں ملوث ہونے پر گرفتار عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنایا تھا۔

عدالت عظمیٰ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے کیس کا 6 صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن ڈی 2 کی ذیلی شقیں ایک اور دو کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 59 (4) بھی کالعدم قرار دی جاتی ہے۔

سپریم کورٹ کے 1-4 کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ فوجی تحویل میں موجود تمام 103 افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوگا۔

عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ 9 اور 10 مئی کے واقعات کے تمام ملزمان کے ٹرائل متعلقہ فوجداری عدالتوں میں ہوں گے اور سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ہونے والے کسی ٹرائل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔

فیصلہ 1-4 کی اکثریت سے سنایا گیا تھا اور جسٹس یحیٰی آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024