نواز شریف وزیراعظم منتخب ہوئے تو ان سے حلف لوں گا، صدر مملکت
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ اگر نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے تو وہ مسلم لیگ(ن) کے قائد سے حلف لیں گے۔
عارف علوی نے وائس آف امریکا اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ میرا عہدہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے اور میں اس عہدے کی ذمہ داری پوری کروں گا، قوم جسے بھی منتخب کرے گی میں اس سے حلف لوں گا۔
انٹرویو کے دوران جب صدر مملکت سے پوچھا گیا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ عام انتخابات 8 فروری کو ہی ہوں گے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں، مجھے پورا یقین ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات کے نتیجے میں عوام کی رائے آ جاتی ہے اور جب عوام کی رائے آ جائے گی تو حکومت، سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے ملک کے مفاد میں مل کر کام کرنا آسان ہو جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نگران حکومت نے عوامی سطح پر یقین دہانی کرائی ہے کہ انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ ہو گی اور میرے خیال میں وزیراعظم کی جانب سے اس بات کا ذکر کرنا انتہائی اہم بات ہے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ ہو۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے دو اداروں الیکشن کمیشن اور وزیر اعظم کی بہت بڑی ذمے داری ہے، تو میں اور پوری قوم وزیر اعظم کی بات پر بھروسہ کرتے ہیں اور ہمیں امید ہے اس کا اہتمام کیا جائے گا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آنے والے انتخابات کے لیے کوئی ایک جماعت فیورٹ ہے تو صدر مملکت نے جواب دیا کہ میں اس وقت ان چیزوں پر بات کر کے اپنے آپ کو متنازع نہیں بنانا چاہتا، ہمارا میڈیا آزاد ہے اور اگر آپ اخباروں اور میڈیا سے کوئی رائے قائم کرتے ہیں تو ایسا کرتے رہیں، میں خود اس بات کا اظہار نہیں کروں گا ورنہ یہ صدر کا عہدہ متنازع بن جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر کا عہدہ نان ایگزیکٹو عہدہ ہے، میری صرف اخلاقی کیفیت ہے اور میں اس کی عکاسی کرتا رہتا ہوں اور میں نے جب وزیر اعظم کو خط لکھا تھا تو اس میں بھی اپنی یہ پوزیشن کا واضح کردیا تھا۔
جب ان سے پوچھا کہ صدر صرف خط لکھیں گے یا کوئی عملی اقدام بھی کریں گے تو اس کے جواب میں ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ عملی اقدام کی میرا آئین اجازت نہیں دیتا، جو آئین اجازت دیتا ہے میں وہی کروں گا، یہاں کوئی ایگزیکٹو اتھارٹی ہی نہیں ہے لہٰذا وہ توقعات صدر سے نہیں ہونی چاہئیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے تو صدر مملکت نے جواب دیا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ عدالتوں پر منحصر ہے، میں اس معاملے میں نہیں پڑنا چاہتا، انشااللہ انصاف ہو گا، پاکستان انصاف کی بنیاد پر بنا ہے اور انصاف ہی کی بنیاد پر قائم رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ میں اگر ایوان صدر میں نہ ہوتا تو جیل میں ہوتا، میں ایک سیاسی کارکن ہوں اور بہت مرتبہ جیل گیا ہوں، میں نے گولی کھائی ہے، میں ایک زمانے میں سیاسی کارکن رہا ہوں اور ایوب خان کے زمانے میں گولی بھی کھائی تھی، میں اس تمام صورتحال پر پریشان ہوتا ہوں اور اگر پریشان ہوتا تو جیل میں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے ہر انٹرویو میں 9 مئی کے واقعات کی مذمت کی ہے، 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کرنے یا نہ کرنے کا اختیار عدالتوں کے پاس ہے، میرا ماننا ہے کہ حکومتوں کو موقع نہیں دینا چاہیے کہ سڑکوں پر اس طرح کا احتجاج ہو اور احتجاج میں قومی اثاثوں کو نقصان نہیں پہنچایا جانا چاہیے۔
ڈاکٹر عارف علوی نے غزہ کے معاملے پر حکومت پاکستان کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ دنیا اتنا ظلم دیکھ رہی ہے، مجھے تو انسانیت پر شرم آتی ہے کہ کیسے وہ تماشا دیکھ رہے ہیں اور سیز فائر کے لیے تیار نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا دو ریاستی حل کو مسلسل ملتوی کرتی رہی ہے، اوسلو معاہدہ 90 کی دہائی میں ہوا، پھر کیمپ ڈیوڈ امن معاہدہ ہوا اور اسرائیلی وزیراعظم مسلسل یہ کہتے رہے ہیں کہ ہم نے دو ریاستیں بننے نہیں دینی ہیں لہٰذا یہ سب اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
افغان شہریوں کو ان کے وطن واپس بھیجے جانے کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں یہ پاکستان پر بہت بڑا بوجھ ہے، 30 لاکھ لوگوں کو ہم نے 40 سال سے اپنے ملک میں پناہ دی ہوئی ہے، ہماری معیشت پر اس کا بہت اثر ہوا، ہمارے اپنے روزگار پر اثر ہوا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغان حکومت سے کئی بار کہا ہے کہ شدت پسند عناصر کو اپنی سرحد سے یہاں نہ آنے دیں، اس حوالے سے کافی ثبوت بھی دیے ہیں، ہمارے تحفظات دور نہیں کیے گئے لیکن دونوں ملکوں میں رابطہ ہے، رابطے کا فقدان نہیں ہے لیکن میرے خیال میں افغانستان کی جانب سے زیادہ توجہ دی جانی چاہیے۔