• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

سائفر کیس: شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت مسترد

شائع November 16, 2023
عدالت نے خصوصی عدالت کو ہدایت دی کہ اس حکم کی وصولی کی تاریخ سے 4 ہفتوں کے اندر مقدمے کی سماعت مکمل کرے—فوٹو: ڈان نیوز
عدالت نے خصوصی عدالت کو ہدایت دی کہ اس حکم کی وصولی کی تاریخ سے 4 ہفتوں کے اندر مقدمے کی سماعت مکمل کرے—فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی بعد از گرفتاری ضمانت کی درخواست مسترد کردی جب کہ چیف جسٹس عامر فاروق نے ٹرائل کورٹ کو چار ہفتوں میں کارروائی مکمل کرنے کی ہدایت کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شاہ محمود قریشی پر لگائے گئے الزامات ثابت ہوجائیں تو ان کی سزا موت ہے، ایسے مقدمات میں جہاں ملزم پر سنگین الزامات ہوں، عدالتیں ضمانت کا ریلیف دینے سے گریز کرتی ہیں۔

اس مقدمے میں عمران خان کے ساتھ ان پر واشنگٹن سے موصول خفیہ دستاویز کے مواد کو غیر مجاز افراد اور بڑے پیمانے پر عوام تک پہنچانے کا الزام لگایا گیا ہے۔

یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ 28 مارچ 2022 کو شاہ محمود قریشی اور عمران خان کی اسلام آباد میں ملاقات ہوئی جہاں سائفر کے مندرجات کو سیاسی فائدے کے لیے منظر عام پر لانے کی سازش تیار کی گئی۔

شاہ محمود قریشی کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ درخواست گزار نے سائفر کو بڑے پیمانے پر عوام کے سامنے ظاہر کیا، اس لیے ان پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے سیکشن 5 اور 9 کا اطلاق نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ استغاثہ نے اپنے کیس میں سی آر پی سی کی دفعہ 161 اور 164 کے تحت محمد اعظم خان کے دیے گئے بیان پر انحصار کیا ہے اور یہ قانون ہے کہ شریک ملزم کا بیان دیگر ملزمان کے خلاف بطور ثبوت یا ان پر الزام لگانے کے لیے کافی نہیں ہے۔

انہوں نے استدلال کیا کہ اس وقت درخواست گزار اور شریک ملزمان کا ٹرائل سینٹرل جیل اڈیالہ راولپنڈی میں ہو رہا ہے، یہ جیل ٹرائل ہے جس کا 3 اکتوبر کو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، تاہم نوٹیفکیشن میں درخواست گزار کا نام نہیں تھا۔

انہوں نے دلیل دی کہ شاہ محمود قریشی کے خلاف کارروائی غیر قانونی ہے جب کہ ان کے جیل ٹرائل کے حوالے سے کوئی حکم نہیں دیا گیا یا کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔

ایف آئی اے کا مؤقف

ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ درخواست گزار کے خلاف الزام ہے کہ اس نے مرکزی ملزم عمران خان کی معاونت کی، اس کی حوصلہ افزائی کی اور اسے اکسایا، اس لیے اس کا مقدمہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے سیکشن 9 کے تحت آتا ہے اور اس جرم کی سزا بھی وہی ہے جو اصل مجرم کی ہوتی ہے یعنی سزائے موت یا عمر قید۔

یہ بھی بتایا گیا کہ استغاثہ کے 28 گواہوں میں سے تین نے اپنے شواہد پیش کردیے۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ کیونکہ مقدمے کی سماعت شروع ہو چکی، اس لیے عدالت کے لیے میرٹ پر کوئی فیصلہ دینا مناسب نہیں ہوگا۔

استغاثہ نے کہا کہ 27 مارچ 2022 کو شاہ محمود قریشی کی تقریر کے مندرجات سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے لوگوں کو سائفر کے مواد کو ظاہر کرنے کے لیے مرکزی ملزم کو اکسایا اور اس کی معاونت کی۔

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ بلاشبہ ضمانت کو سزا کے طور پر نہیں رکھا جانا چاہیے لیکن جہاں سزا موت یا عمر قید ہو وہاں عدالت کو احتیاط کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا، اس سلسلے میں توازن برقرار رکھنا ہے کہ کسی شخص کی آزادی پر سمجھوتہ نہ کیا جائے لیکن ساتھ ہی الزام کی نوعیت کو بھی مدنظر رکھا جائے۔

اس کے بعد عدالت نے ضمانت کی درخواست کو خارج کرتے ہوئے خصوصی عدالت کو ہدایت دی کہ اس حکم کی وصولی کی تاریخ سے چار ہفتوں کے اندر مقدمے کی سماعت مکمل کرے۔

عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس

اس کے علاوہ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت بحال کردی۔

احتساب عدالت نے عمران خان کی ضمانت کی درخواست عدم پیروی کے باعث خارج کر دی تھی۔

عدالت نے عمران خان کے دلائل سننے اور میرٹ پر فیصلہ کرنے کی ہدایت کے ساتھ درخواست ضمانت بحال کی۔

تاہم بینچ نے عمران خان کی 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس میں ضمانت کی درخواست کو غیر موثر ہونے کی وجہ سے مسترد کر دیا جب کہ نیب اس کیس میں سابق وزیر اعظم کو پہلے ہی گرفتار کر چکا ہے۔

بشریٰ بی بی کی عمران خان سے تنہائی میں ملاقات کی اجازت دینے کی درخواست

اس کے علاوہ بشریٰ بی بی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں اپنے شوہر عمران خان سے تنہائی میں ملاقات کی اجازت طلب کی گئی ہے۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ انہیں اپنے شوہر سے ہفتہ وار ملاقات کی اجازت ہے لیکن جیل حکام کی موجودگی میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ ذاتی اور خاندانی معاملات پر بات نہیں کر سکتیں۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ جیل سپرنٹینڈنٹ کو شوہر سے رازداری میں ملاقات کرانے کے لیے ہدایت جاری کی جائے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024