سرکاری ملکیتی اداروں سے متعلق پالیسی کمیٹی سے منظور
کمیٹی نے سرکاری ملکیتی اداروں کے لیے (اونرشپ اینڈ منیجمنٹ) پالیسی 2023 کلیئر کر کے وفاقی کابینہ کو منظوری کے لیے بھیج دی، جس کا مقصد قومی خزانے پر ہر سال 500 ارب روپے کا بوجھ ڈالنے والے سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر کرنا ہے، یہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے قرض پروگرام کے تحت ضروری ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی برائے سرکاری ملکیتی اداروں کے اجلاس میں کیا گیا۔
بیان میں بتایا گیا کہ اجلاس میں پینل کے تمام ممبران کے ساتھ چیئرمین سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور اعلیٰ سرکاری افسران نے شرکت کی، جنہوں نے کابینہ کو نظرثانی شدہ پالیسی کی منظوری کی سفارش کی۔
مزید بتایا گیا کہ یہ پالیسی سرکاری کاروباری اداروں کی گورننس اور آپریشنز کو بہتر کی طرف ایک اہم قدم ہے، جو اسٹیٹ اونڈ انٹر پرائزز (گورننس اینڈ آپریشنز) ایکٹ 2023 میں بیان کردہ وسیع تر مقاصد کے مطابق ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 2023 فروری میں منظور ہونے والی گورننس اینڈ آپریشن ایکٹ پر اب تک عمل درآمد نہیں کیا جاسکتا ہے حالانکہ ریاستی ملکیتی اداروں کی کارکردگی خود مختاری کی کمی، بیرونی مداخلت اور بورڈ آف ڈائریکٹرز اور چیف ایگزیکٹیو افسران کی نامناسب تقرریوں کے سبب خراب ہوئی ہے، اس کی وجہ سے ان کا معیار گرا ہے اور وسائل کا بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔
ریاستی ملکیتی اداروں کے لیے پالیسی کے مسودے کے تحت وزارت خزانہ میں سینٹرل مانیٹرنگ یونٹ (سی ایم یو) دسمبر تک تمام اداروں کے مالیاتی صورتحال کو آئی ایم ایف کو اطمینان کرنے کے لیے جمع اور اپ ڈیٹ کرے گا، اور یہ بورڈز آف ڈائریکٹرز اور وزارتوں کے درمیان رابطے کے لیے مرکز کے طور پر کام کرے گا۔
سی ایم یو سرکاری ملکیتی اداروں کے روزمرہ کے امور میں مداخلت نہیں کرے گا لیکن کسی بڑے مسئلے کی صورت میں کابینہ کے ساتھ بات کرے گا اور مالی، تجارتی اور آپریشنل معاملات پر جامع ڈیٹا کو برقرار رکھے گا۔
گورننس اینڈ آپریشن ایکٹ 2023 کے تحت بورڈ کے اکثریت اراکین کا غیرجانبدارانہ نامزدگیوں کی بنیاد پر تقرر کیا جائے گا، اور مدت پوری کرنے کا تحفظ دیا جائے گا، اس کے بعد وفاقی کابینہ کی طرف سے منظور شدہ پالیسی گائیڈ لائنز کے علاوہ بورڈ چیف ایگزیکٹیو افسران کو متعلقہ وزارتوں یا حکومت کی مداخلت کے بغیر منتخب کرے گا۔