• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

آڈیو لیک کرنے والوں کی شناخت کی صلاحیت نہیں، پی ٹی اے کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں جواب

شائع November 15, 2023
پی ٹی اے نے کہا کہ مبینہ آڈیو لیک کرنے والے کی شناخت کی صلاحیت نہیں — فائل/ فوٹو: پی ٹی اے
پی ٹی اے نے کہا کہ مبینہ آڈیو لیک کرنے والے کی شناخت کی صلاحیت نہیں — فائل/ فوٹو: پی ٹی اے

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ اس کے پاس سوشل میڈیا پر آڈیو ریکارڈنگ لیک کرنے والے شخص کی شناخت کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی اے کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قابل اطلاق قوانین پی ٹی اے کو اس طرح کا کوئی دائرہ اختیار فراہم نہیں کرتے کہ وہ مبینہ آڈیو لیک کرنے والوں کی شناخت کر سکے۔

پی ٹی اے کا ردعمل اس وقت سامنے آیا ہے جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی شریک حیات بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم الثاقب کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران متعدد سوالات اٹھائے اور اس حوالے سے نشان دہی کی ہدایت کی گئی تھی۔

سابق چیف جسٹس کے صاحبزادے نے پنجاب اسمبلی کے امیدوار سے رشوت طلب کرنے کے حوالے سے پارلیمانی کارروائی چیلنج کی تھی جبکہ سابق خاتون اول نے اس وقت کے وزیراعظم کے سابق معاون زلفی بخاری سے توشہ خانہ کے تحائف فروخت کرنے کی مبینہ گفتگو سے متعلق جاری تحقیقات کو چیلنج کیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے گزشتہ سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ الیکٹرونک نگرانی کیسے کی جا رہی ہے اور کون کر رہا ہے، فون کالز ریکارڈ کرنے کا فیصلہ کرنے کی مجاز اتھارٹی کون ہے، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کا کہنا تھا کہ انہوں نے کسی کو تیسرے فریق کی بات چیت سننے کی اجازت نہیں دی ہے۔

جسٹس بابر ستار نے جواب دہندہ حکام سے کہا تھا کہ پی ٹی اے، وزیر اعظم آفس اور ایف آئی اے سمیت ان اداروں اور ایجنسیوں کی نشان دہی کریں جن کے پاس ٹیلی فون کالز ریکارڈ کرنے یا ٹیلی کمیونیکیشن کی نگرانی کی مطلوبہ تکنیکی صلاحیت موجود ہے۔

آج عدالت میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں، جس کی ایک کاپی ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کے پاس دستیاب ہے، پی ٹی اے کا کہنا تھا کہ الیکٹرونک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2016 کے سیکشن 20 (بدنیتی پر مبنی ضابطہ) کے تحت کوئی متاثرہ شخص اتھارٹی سے کسی شخص کی ساکھ یا رازداری کو نقصان پہنچانے والا مواد بلاک کرنے کے لیے رابطہ کرسکتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قانون نے پی ٹی اے کو یہ اختیار بھی دیا ہے کہ اگر اسلام، پاکستان کی سلامتی یا دفاع، امن عامہ، شائستگی یا اخلاقیات یا توہین عدالت کے حوالے سے مواد ہٹا سکتا ہے۔

بتایا گیا کہ غیر قانونی مواد ہٹانے اور مسدود کرنے کے لیے پیکا کے تحت ریگولیٹڈ رولز غیر قانونی آن لائن مواد ہٹانا اور بلاک کرنا (طریقہ کار، نگرانی اور حفاظت) رولز 2021 ہے۔

ان قوانین کے تحت درج کی گئی شکایات کا پہلے تجزیہ اور پھر منظوری دی جاتی ہے اور پھر مواد ہٹانے کے لیے سوشل میڈیا آپریٹر سے رابطہ یا ان کی خدمات کے خلاف تکنیکی کارروائی کے ذریعے اقدامات کیے جاتے ہیں۔

پی ٹی اے نے وضاحت کی کہ سوشل میڈیا آپریٹرز درخواستیں بڑھانے کے لیے ریگیولیٹرز کو قانونی راستے فراہم کرتے ہیں، لیکن وہ بھی اپنی کمیونٹی گائیڈلائنزپر عمل کرتے ہیں، لہٰذا کوئی بھی درخواست جو ان گائیڈلائنز کے مطابق نہ ہو، اسے قبول نہیں کی جا سکتی۔

تکنیکی کارروائی کے معاملے پر اتھارٹی نےکہا کہ ٹیلی کام آپریٹر کے سرور پر انٹرنیٹ ٹریفک کو تکنیکی وجوہات کی بنیاد پر مانیٹر کیا جاسکتا ہے کہ جیسا قابل بلاک مواد ہے، تاہم پلے میں ٹیکنالوجی کی وجہ سے یہ اختیار محدود ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پیکا کا سیکشن 29 (ٹریفک ڈیٹا برقرار رکھنا) ایک تحقیقاتی ایجنسی کے قیام کا اختیار دیتا ہے اور یہ کام سائبر کرائم ونگ کے ذریعے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو دیا گیا ہے۔

وزیراعظم کے دفتر کی رپورٹ

پچھلی سماعت پر وزیراعظم کے آفس نے بھی اس معاملے میں اپنی رپورٹ پیش کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ وہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ڈومین میں مداخلت نہیں کرتا اور ایک فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے ان سے توقع کرتا ہے کہ عوامی مفاد میں وہ آئین اور مروجہ قانون کے تحت کام کریں گے۔

وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری کی طرف سے جمع کرائے گئے جواب کے مطابق، آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے کیے گئے اقدامات کی وضاحت کے تناظر میں، وفاقی حکومت نے ستمبر 2022 میں وزیر اعظم آفس / ہاؤس میں سائبر سیکیورٹی کی خلاف ورزی کے پیش نظر وزیر اعظم کی طرف سے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کا مقصد اس خلاف ورزی کی تحقیقات کی نگرانی اور سائبر اسپیس محفوظ بنانے کے لیے اقدامات تجویز کرنا اور اسٹریٹجک اہمیت کے حامل عوامی دفاتر کی الیکٹرونک سیکیورٹی یقینی بنانا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کابینہ ڈویژن کے 19 مئی 2023 کے نوٹی فکیشن کے ذریعے ایک انکوائری کمیشن بھی تشکیل دیا گیا تھا تاکہ مبینہ آڈیو لیکس کی سچائی کی تحقیقات کی جا سکے جس سے عدلیہ کی آزادی کے بارے میں سنگین خدشات پیدا ہوئے تھے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم کمیشن میں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ وزیر اعظم کا دفتر انٹیلی جنس ایجنسی کے روزانہ کے حساس کاموں میں مداخلت نہیں کرتا، ایک سیاسی اور انتظامی دفتر ہونے کے ناطے پی ایم او آفس آزادانہ تعلق قائم رکھا ہوا ہے اور وہ انٹیلی جنس ایجنسی کے کلیدی کاموں میں دخل اندازی نہیں کرتا۔

شہریوں کی نگرانی کے حوالے سے ایجنسی کو بااختیار بنانے والے قوانین کی بات کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ شہریوں کے درمیان ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ کی اجازت دینے کے لیے انویسٹی گیشن فار فیئر ٹرائل 2013 ایک منظم طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔

پی ایم آفس کے مطابق ٹیلی گراف ایکٹ، 1885 ’پیغامات کی روک تھام‘ کے لیے ایک طریقہ کار فراہم کرتا ہے، اس کے علاوہ الیکٹرونک جرائم کی روک تھام کا ایکٹ، 2016 بھی اسی موضوع سے متعلق ہے۔

مختلف قوانین کا حوالہ اور اس معاملے میں وزیر اعظم کے دفتر کے مؤقف کی وضاحت کرتے ہوئے وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری نے مشورہ دیا تھا کہ عدالت جو ’مناسب سمجھے‘ اسی طرح فیصلہ کرے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024