فیض آباد دھرنا کیس: ’تحقیقاتی کمیشن سابق وزیراعظم، آرمی چیف، چیف جسٹس سے بھی تفتیش کر سکتا ہے‘
سپریم کورٹ میں فیض آباد میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے 2017 کے دھرنے سے متعلق اپنے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریماکس دیے ہیں کہ حکومت کا تشکیل کردہ انکوائری کمیشن سابق وزیراعظم، آرمی چیف اور چیف جسٹس کو بلا کر بھی تفتیش کر سکتا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔
آج کی سماعت شروع ہونے سے قبل فیض آباد دھرنا کیس میں اہم پیشرفت سامنے آئی جب وفاقی حکومت نے معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دے دیا۔
تشکیل کردہ کمیشن میں ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ، 2 ریٹائرڈ سابق آئی جیز طاہر عالم خان اور اختر شاہ شامل ہیں۔
ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو موصول نوٹی فکیشن کے ٹی او آرز کے مطابق کمیشن کو فیض آباد دھرنا اور اس کے بعد ہونے والے واقعات کے لیے ٹی ایل پی کو فراہم کی گئی غیر قانونی مالی یا دیگر معاونت کی انکوائری کا کام سونپا گیا ہے۔
سماعت شروع ہوئی تو عدالت کے نوٹس پر شیخ رشید احمد پیش ہوئے، سپریم کورٹ نے شیخ رشید کی نظر ثانی درخواست واپس لینے پر خارج کر دی، چیف جسٹس نے شیخ رشید سے مکالمہ کیا کہ آپ نے نظرثانی کی درخواست آخر دائر ہی کیوں کی تھی، چار سال تک اس کیس کو لٹکائے رکھا۔
شیخ رشید نے کہا کہ کچھ غلط فہمی ہو گئی تھی اس لیے درخواست دائر کر دی، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ نہیں ہو گا کہ اوپر سے حکم آیا ہے تو نظرثانی دائر کر دی، سچ سب کو پتا ہے بولتا کوئی نہیں، کوئی ہمت نہیں کرتا۔
شیخ رشید کے وکیل نے کہا کہ آج کل تو سچ بولنا اور ہمت کرنا کچھ زیادہ مشکل ہو گیا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آج کل کی بات نہ کریں، ہم اس وقت کی بات کر رہے ہیں، یہ معاملہ مذاق نہیں ہے، پورے ملک کو آپ نے سر پر نچا دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کوئی مذاق نہیں جب چاہے درخواست دائر کی جب دل کیا واپس لے لی، نظر ثانی درخواستیں اتنا عرصہ کیوں مقرر نہیں ہوئیں یہ سوال ہم پر بھی اٹھتا ہے، کیا سپریم کورٹ کو اس وقت کوئی عدالت سے باہر کی قوتیں کنٹرول کر رہی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے ہم خود قابل احتساب ہیں، نظرثانی کی درخواست آجاتی ہے پھر کئی سال تک لگتی ہی نہیں، پھر کہا جاتا ہے کہ فیصلے پر عمل نہیں کیا جارہا، کیونکہ نظرثانی زیر التوا ہے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے شیخ رشید سے استفسار کیا کہ آپ اب بھی یہ سچ نہیں بولیں گے کہ کس نے نظرثانی کا کہا تھا، شیخ رشید نے کہا کہ نظر ثانی درخواست دائر کرنے کے لیے مجھے کسی نے نہیں کہا تھا۔
جلاؤ گھیراؤ کا کہتے ہیں تو اس پر کھڑے بھی رہیں نا، چیف جسٹس
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے انکوائری کمیشن کا نوٹی فکیشن عدالت میں پیش کر دیا، اٹارنی جنرل نے کمیشن کے ٹی او آرز بھی عدالت میں پڑھ دیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جو ایم این اے رہ چکے اور وزیر رہ چکے وہ تو ذمہ دار ہیں نا، جلاؤ گھیراؤ کا کہتے ہیں تو اس پر کھڑے بھی رہیں نا، کہیں نا کہ ہاں میں نے حمایت کی تھی، دوبارہ موقع ملے تو کیا پھر ملک کی خدمت کریں گے؟
چیف جسٹس نے شیخ رشید کو روسٹرم پر آکر بولنے سے روک دیا، شیخ رشید سے چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ آپ سے نہیں پوچھ رہے آپ کے وکیل سے پوچھ رہے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ شیخ رشید ایک سینئر پارلیمنٹرین ہیں، آپ کے حوالے سے عدالت نے کچھ نہیں کہا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ساڑھے چار سال گزر گئے ساٹھ دنوں میں دیکھ لیتے ہیں، حاضر سروس کے بارے میں یہ خدشہ ہوتا ہے کہ اس کی سروس متاثر ہوسکتی ہے۔
ہر ادارے کو اپنا کام خود کرنا چاہے، جسٹس اطہر من اللہ
انہوں نے ابصار عالم سے مکالمہ کیا کہ اپنے خدشات کو ابھی محفوظ رکھیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہر ادارے کو اپنا کام خود کرنا چاہے، ہم سے وہ کام نہ کروائیں جو کبھی 184 کی شق کے اختیار کا استعمال کر کے ماضی میں ہوتا رہا، ہوسکتا ہے ساٹھ دنوں میں آپ کی بات سچ نکل آئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ امید پر دنیا قائم ہے، ہم پہلے سے ہی شک نہیں کر سکتے، سچ تو تفتیشی بھی نکال سکتا ہے۔
انہوں نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوانا شروع کیا جس میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے انکوائری کمیشن کی تشکیل کا نوٹی فکیشن پیش کیا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹی او آرز میں شامل کیا جائے گا کہ نظر ثانی درخواستیں دائر کرنا حادثہ تھا یا کسی کی ہدایت، اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ٹی او آرز ایک ہفتے میں شامل کر لیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اب کیس دو ماہ بعد سنیں گے، جس پر اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ سماعت 20 جنوری کے بعد کی جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو استثنیٰ نہیں سب کو کمیشن بلا سکتا ہے، حکم نامے میں کہا گیا کہ کمیشن ابصار عالم کے نام لیے گئے افراد کو بھی بلانے کا اختیار رکھتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سچ اگلوانا ہو تو ایک تفتیشی بھی اگلوا لیتا ہے اور نہ اگلوانا ہو تو آئی جی بھی نہیں اگلوا سکتا، دھرنے کی تحقیقات کرنے والا انکوائری کمیشن سابق وزیراعظم، آرمی چیف اور چیف جسٹس کو بلا کر بھی تفتیش کر سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کمیشن جسے بلائے اور وہ نہ آئے تو کمیشن اسے گرفتار بھی کروا سکتا ہے، کمیشن آنکھوں میں دھول بھی بن سکتا ہے اور نیا ٹرینڈ بھی بنا سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے کیس کی مزید سماعت 22 جنوری تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس کے طور پر حلف اٹھانے سے برسوں قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تحریر کردہ اس سنگین فیصلے میں وزارت دفاع اور تینوں افواج کے سربراہوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنے زیر قیادت ان اہلکاروں کو سزا دیں جو اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے پائے گئے۔
انہوں نے وفاقی حکومت کو نفرت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وکالت کرنے والوں کی نگرانی کرنے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔
20 روزہ جاری رہنے والے دھرنے کے باعث اسلام آباد اور راولپنڈی دونوں میں زندگی مفلوج کر کے عوام کو تکلیف پہنچانے پر متعدد سرکاری محکموں کے خلاف بھی منفی مشاہدات کیے گئے تھے۔
بعد ازاں وزارت دفاع، انٹیلی جنس بیورو، پی ٹی آئی، پیمرا، الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل) کے سربراہ شیخ رشید اور اعجاز الحق کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف درخواستیں دائر کی گئیں۔
تاہم، زیادہ تر درخواست گزاروں نے اپنی درخواستیں واپس لے لیں جس پر چیف جسٹس نے سوال پوچھا کہ ہر کوئی سچ بولنے سے اتنا ڈرتا کیوں ہے؟
گزشتہ سماعت کے دوران پیمرا کے سابق سربراہ ابصار عالم نے فیض آباد دھرنے کے دوران انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مداخلت اور میڈیا پر جبر کے انکشافات کیے تھے۔
اس ہفتے کے آغاز میں درخواستوں پر جاری کردہ ایک حکم میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ وہ حکومت سے توقع کرتی ہے کہ وہ دھرنے کے بارے میں فیکٹ فائنڈنگ تحقیقات کو مقررہ وقت کے اندر حتمی شکل دے گی، انہوں نے ای سی پی کو تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اور اس کی فنڈنگ سے متعلق رپورٹ تیار کرنے اور جمع کرانے کے لیے ایک ماہ کی مہلت بھی دی تھی۔
مزید برآں، عدالتی حکم نے اٹارنی جنرل (اے جی) کے اعتراض کو دوبارہ پیش کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے وزارت دفاع کی جانب سے سول نظر ثانی کی درخواست دائر کی تھی اور ایک درخواست انٹیلی جنس بیورو کی جانب سے دائر کی تھی، وفاقی حکومت دونوں کو واپس لینا چاہتی ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ نظرثانی کی درخواستیں دائر کی گئیں اور وہ چار سال آٹھ ماہ سے زیر التوا ہیں، وفاقی حکومت سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ فضول درخواستیں دائر کرے گی اور عدالت کے عمل کا غلط استعمال کرے گی۔
درخواستیں
آئی بی کی نظرثانی کی درخواست میں عدالت سے محکمے کے خلاف کیے گئے منفی مشاہدات کو ایک طرف رکھنے کی استدعا کی گئی تھی، انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک اعلیٰ سول انٹیلی جنس ایجنسی ہے جو ریاست کی سلامتی کی ذمہ دار ہے۔
اس درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ غیر قانونی حکم نامے نے عوام میں ایک خراب تاثر پیدا کیا ہے کہ آئی بی آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے غیر قانونی سرگرمیوں اور سیاست میں ملوث ہے۔
اس میں مزید کہا گیا کہ فیصلے میں دیے گئے مشاہدات مبہم حقائق پر مبنی تھے اور یہ کہ دھرنے کے دوران محکمہ وفاقی اور پنجاب حکومتوں کے ساتھ قریبی رابطے میں تھا اور انہیں ٹی ایل پی کے منصوبوں اور ارادوں کے بارے میں پیشگی سے آگاہ کیا تھا،اس خیال کے ساتھ کہ اسلام آباد میں طوفان/لاک ڈاؤن کی ان کی کوشش کو ناکام بنایا جائے۔
دریں اثنا، جواب میں وزارت دفاع نے عدالت سے مسلح افواج یا انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے بارے میں واضح یا غیر واضح مشاہدات کو ایک طرف رکھنے کی درخواست کی تھی۔
وزارت کی درخواست میں کہا گیا تھا کہ بہت سے عوامل حوصلے کو متاثر کر سکتے ہیں ،تاہم ن کا کہنا تھا کہ اس عہدے اور فائل کے درمیان یہ یقین سب سے زیادہ نقصان دہ تھا کہ ان کے افسران خود ساختہ نجات دہندہ کی طرح کام کرتے ہوئے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور پاکستان اور اس کے تمام شہریوں کی خدمت کرنے کے بجائے خاص سیاسی جماعت، دھڑا یا سیاست دان کی حمایت کر رہے ہیں۔
نظرثانی کی درخواست میں استدعا کی گئی کہ جب اس طرح کے ریمارکس کی سورس ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہو تو یہ انتشار پسند رجحانات کو فروغ دے سکتی ہے اور اس میں مسلح افواج کی اجتماعی طور پر لڑنے کی قوت کے طور پر کام کرنے کو تباہ کرنے کی صلاحیت ہے۔
اپنی درخواست میں، ای سی پی نے استدلال کیا تھا کہ اس نے 16 اگست 2017 کو ٹی ایل پی کو ایک خط جاری کرکے آئین، قانون اور ضابطہ اخلاق کا جامع طور پر اطلاق اور نفاذ کیا تھا، جس میں پارٹی سے اپنے بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات فراہم کرنے کو کہا گیا تھا اور یہاں تک کہ اسے نوٹس جاری کیا گیا تھا۔
دریں اثنا، پی ٹی آئی نے 2014 کے اسلام آباد میں اس کے اور پاکستان عوامی تحریک کے مشترکہ دھرنے کے فیصلے میں ذکر پر سوال اٹھایا تھا اور کہا تھا کہ اس سے جو تاثر ملتا ہے وہ یہ ہے کہ پارٹی نے تشہیر کے لیے غیر قانونی احتجاج کیا اور جان بوجھ کر غلط الزامات لگائے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ پارٹی کا ٹی ایل پی کے فیض آباد دھرنے سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا ریمارکس کو خارج کیا جائے۔
شیخ رشید نے فیصلے سے اپنا نام ہٹانے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا، اپنی درخواست میں، اے ایم ایل کے سربراہ نے استدعا کی کہ اگر فیصلے کے پیرا 4 میں ان کے بارے میں الفاظ کو ختم نہیں کیا گیا تو وہ اپنی زندگی میں منفی اثرات کا شکار ہوں گے۔
فیض آباد دھرنا
یاد رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت ٹی ایل پی نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا تھا۔
حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا تھا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
اس دھرنے کے نتیجے میں وفاقی دارالحکومت میں نظام زندگی متاثر ہوگیا تھا جبکہ آپریشن کے بعد مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے تھے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑاتھا۔
27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔
بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران فیض آباد دھرنے کا معاملہ زیر بحث آنے پر اس پر نوٹس لیا تھا اور متعلقہ اداروں سے جواب مانگا تھا۔