لاہور: رہنما پی ٹی آئی یاسمین راشد کے جوڈیشل ریمانڈ میں 27 نومبر تک توسیع
لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 9 مئی واقعات کے حوالے سے گرفتار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کے جوڈیشل ریمانڈ میں 27 نومبر تک توسیع کردی۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ارشد جاوید نے سماعت کی جہاں ڈاکٹر یاسمین راشد نے عدالت سے اجازت طلب کرنے کے بعد کہا کہ ہمیں انتخا بات میں حصہ لینا ہے، اعجاز چوہدری، میاں محمود الرشید اور عمر سرفراز چیمہ سمیت دیگر رہنما انتخابات میں حصہ لیں گے۔
جج نے ان سے پوچھا کہ کیا انتخابات کے لیے جیل سے باہر ہونا لازمی ہے، جس پر یاسمین راشد نے جواب دیا کہ ضروری نہیں لیکن انتخابی مہم تو چلانی ہے۔
جج ارشد جاوید نے کہا کہ آپ کے ایک مقدمے کا چالان آ گیا ہے لیکن مجھے علم نہیں ہے کہ آپ پر کتنے مقدمات ہیں اور اس مقدمے کا باقی ملزمان کی حد تک چالان طلب کیا ہے۔
عدالت نے ڈاکٹر یاسمین راشد کو بتایا کہ چالان آ جائے گا تو اس کو چند ہفتوں میں نمٹا دیں گے۔
ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا کہ 6 ماہ 3 دن سے مجھ سمیت 15 عورتیں جیل میں ہیں، ہم عدالتوں پر یقین رکھتے ہیں لہٰذا ہمیں انصاف دیا جائے، جس پر جج نے کہا کہ ہم گواہوں کو شارٹ لسٹ کرتے ہیں۔
رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ میانوالی، قصور اور فیصل آباد سمیت مختلف اضلاع سے 13 مقدمات میں مجھے گرفتار کرنے آ گئے ہیں تاہم جج نے کہا کہ یہ انتظامیہ کا کام ہے لیکن ہمیں قانون کے مطابق کام کرنا ہے۔
دوسری طرف استغاثہ نے کیس کا 280 صفحات پر مشتمل چالان جمع کرایا، جس میں رانا تنویز، ریاض حسین، ضیا خان اور دیگر 4 افراد کو شامل کیا گیا ہے، چالان میں 45 گواہوں کے نام بھی شامل ہیں۔
عدالت نے یاسمین راشد اور پی ٹی آئی کے دیگر نامزد رہنماؤں کو 24 نومبر کو طلب کیا جبکہ یاسمین راشد کے جوڈیشل ریمانڈ میں 27 نومبر تک توسیع کردی۔
انسداد دہشت گردی عدالت میں سماعت کے بعد ڈاکٹر یاسمین راشد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ انتخابات میں حصہ لینا چاہتی ہیں، میں شہباز شریف اور نواز شریف کے خلاف انتخاب لڑوں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ انتخابات میں مقابلہ کرنا چاہتے ہیں ہمیں باہر نکالیں، انتخابات میں حصہ لینا میرا آئینی حق ہے۔
انہوں نے پی ٹی آئی کی قید خواتین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 6 ماہ ہو چکے ہیں لیکن اب تک چالان مکمل نہیں ہو سکا، 6،6 ماہ سے مائیں بچوں کے بغیر ہیں۔
ڈاکٹر یاسمین راشد کی گرفتاری
خیال رہے کہ 9 مئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے ملک گیر احتجاج کیا گیا تھا جس کے دوران فوجی، سول اور نجی تنصیبات کو نذر آتش کیا گیا، سرکاری و نجی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا تھا جب کہ اس دوران کم از کم 8 افراد ہلاک اور 290 زخمی ہوئے تھے۔
ڈاکٹر یاسمین راشد سمیت دیگر رہنماؤں اور کارکنان کو کور کمانڈر ہاؤس پر مبینہ حملے کے الزام میں دہشت گردی اور دیگر الزامات کے تحت سرور روڈ پولیس میں درج ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا تھا۔
بعد ازاں یاسمین راشد کو ابتدائی طور پر مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) کے تحت 9 مئی کے واقعات کے سلسلے میں حراست میں لیا گیا تھا۔
13 مئی کو لاہور ہائی کورٹ نے یاسمین راشد کی رہائی کا حکم دیا تھا لیکن محض چند گھنٹے بعد 9 مئی سے متعلق مزید 3 مقدمات میں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا تھا جن میں جناح ہاؤس حملہ کیس بھی شامل ہے۔
4 جون کو اے ٹی سی لاہور نے یاسمین راشد کی 23 دیگر ملزمان سمیت رہائی کا حکم دے دیا تھا اور انہیں کیس سے بری کر دیا تھا، تاہم اُن کو تاحال رہا نہیں کیا گیا کیونکہ وہ شادمان تھانے پر حملہ اور شیر پاؤ پل پر فسادات سمیت مزید 2 مقدمات میں گرفتار ہیں۔
9 ستمبر کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے شادمان تھانہ حملہ کیس میں سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ، پی ٹی آئی پنجاب کی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد اور فیشن ڈیزائنر خدیجہ شاہ کو 5 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔
14 ستمبر کو پی ٹی آئی کی رہنما یاسمین راشد کو مئی میں پارٹی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد ریاستی اداروں کے خلاف بیانات اور ہنگامہ آرائی سے متعلق کیس میں 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔
29 ستمبر مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں نے سابق وزیر اعظم اور پارٹی کے دیگر اہم رہنماؤں سمیت 900 سے زائد کارکنوں کو درجن بھر مقدمات میں مرکزی ملزمان قرار دے کر چالان (چارج شیٹس) انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جمع کرایا۔
17 اکتوبر کو انسداد دہشت گردی عدالت نے تھانہ شادمان کیس میں رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ڈاکٹر یاسمین راشد کی درخواست ضمانت مسترد کردی۔