حکومت دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے ’کلیئرکٹ پروگرام‘ دے، اسحٰق ڈار
پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنما اور سینیٹ میں قائد ایوان نے نگران حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں جاری دہشت گردی کے خلاف ’کلیئرکٹ پروگرام‘ دے دیں اور حکومت کے اچھے کام کی سب حمایت کریں گے۔
سینیٹ اجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہوا جہاں ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور دستاویزات کے بغیر مقیم افغان شہریوں کی بے دخلی کے معاملے پر گفتگو کی گئی۔
ملک میں حالیہ چند مہینوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور خاص طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات پیش آئے ہیں اور اس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پر عائد کی جاتی رہی ہے۔
سینیٹ اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اور سابق وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ یہ ایک انتہائی اہم اور حساس معاملہ بھی اور پاکستان کے لیے چیلنج بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ 2014 میں عروج پر پہنچا جب پشاور میں اسکول پر حملہ ہوا اور 100 سے زائد بچے شہید ہوگئے اور فوری طور پر تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کیا گیا، ڈی چوک میں 100 دن سے زائد کا دھرنا تھا، اس کے باوجود میں نے خود ان کو فون کیا اور اجلاس میں شریک ہونے کی دعوت دی۔
ان کا کہنا تھا کہ اسٹیک ہولڈر کے اجلاس میں بہت شواہد سامنے آئے اور پورے ملک کی سیاسی قیادت موجود تھی اور سب کی رائے تھی کہ فوری طور پر کارروائی کرکے اس ناسور کو ختم کرنا ہے۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ 2013 میں ملک کے معاشی دیوالیہ کا خطرہ تھا، بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ تھا، تیسرا مسئلہ دہشت گردی کا تھا اور آرمی پبلک اسکول واقعے نے پوری قوم کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک ایکشن پلان کے لیے تمام سیاسی جماعتیں مل کر بیٹھیں، یہ آسان کام نہیں ہے کیونکہ ان جنگوں کے لیے کئی سو ارب درکار ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 2014 کے بجٹ میں کوئی شق نہیں تھی کہ دہشت گردی کے خلاف ہم نے کوئی بڑا خرچہ کرنا تھا لیکن قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں دو ہفتوں کے اندر سیاسی جماعتوں نے نیشنل ایکشن پلان بنایا تھا، جس کی بنیاد یہ تھی کہ اپنی سرزمین کسی کے خلاف دہشت گردی کے حوالے سے استعمال کرنے نہیں دیں گے۔
دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں ضرب عضب کا فیصلہ کیا گیا اور اس وقت اندازہ تھا کہ ایک سال کے لیے 100 ارب روپے درکار ہوں گے اور اس کے لیے رقم منظور ہوئی، پھر ضرب عضب کے بعد ردالفساد شروع ہوا اور یہ سلسلہ 3 سال سے زائد جاری رہا۔
اسحٰق ڈار نے دہشت گردی کے خلاف آپریشن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ان آپریشنز پر سالانہ 100 ارب روپے سے زیادہ خرچہ ہوتا تھا اور سرحد پر مستقل طور پر روکنے کے لیے باڑ کے پروگرام کے لیے بھی اربوں روپے درکار تھے۔
’خطرناک دہشت گردوں کو رہا کس نے کروایا‘
انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا چاہیے، کس نے کہا تھا کابل میں جا کر طالبان حکومت کے آنے کے ان کو انگیج کریں، کیوں، کس نے کہا تھا کو خطرناک دہشت گرد تھے اور جیلوں میں بند تھےاور دہشت گردی کے درجنوں واقعات کروائے تھے لیکن انہیں چھڑوایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں سے پوچھیں گے، یہ سائیکل برداشت نہیں کرسکتے اور اس کا بوجھ عام آدمی پر پڑتا ہے، وہ اس کی قیمت ادا کرتا ہے، مالی اثرات ان پر پڑتے ہیں، ہم ٹیکس کے پیسوں سے کچھ ٹھیک کرتے ہیں لیکن پھر 180 یوٹرن لیتے ہیں، اس طرح کام نہیں چلے گا۔
سابق وزیرخزانہ نے کہا کہ میں متعلقہ لوگوں خاص طور پر وزیرداخلہ اور حکومت سے گزارش کروں گا کہ ’کلیئرکٹ پروگرام‘ بنا کر اس ایوان میں پیش کریں، اعداد وشمار دیں، پچھلے 15 سال سے 20 سال کے اعداد وشمار دیں تاکہ سب کو پتا چلے کہ 2008 میں کیا تھا کہاں پہنچا اور پھر دوبارہ دہشت گردی کیوں بڑھی ہے، اس کا تجزیہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں پتا تو چلے کہ ہم نے کون سی غلطیاں کی ہیں، یہ سب سے بڑی غلطی تھی اور میرے خیال میں کسی سیاسی جماعتوں کو آن بورڈ نہیں کیا گیا اور اس میں حکومت کے اتحادی بھی شامل نہیں تھا، کیا ون مین یا دو چار بندوں کو قوم کی تقدیر سے ایسے گھناؤنے کھیل کھیلنے کی اجازت ہونی چاہیے تھی۔
’دہشت گردوں کو رہا کرنے والے قوم سے معافی مانگیں‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر انہوں نے غلطی کی ہے تو قومی سے معافی تو مانگیں، ہمیں کابل میں فوٹو سیشن دنیا کو نہیں دکھانا چاہیے تھا کہ ہم طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں، اسمبلی اور سینیٹ سے پوچھے بغیر طے کرکے آئے اور قوم کو اعتماد میں لیے بغیر سیکڑوں خطرناک دہشت گرد چھوڑ دیے۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ ہمیں واضح روڈ میپ اپنانا ہوگا اور مستقل حکومت کے آنے کا انتظار نہیں ہوسکتا، 3 مہینے طویل وقت ہے، جب تک مزید کتنے حادثات ہوں گے، خدا کے لیے دن رات بیٹھیں، جیسے اے پی ایس کے بعد بیٹھے تھے، 8 دنوں میں ایکشن پلان کے ساتھ نکلے تھے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت مہربانی کرکے اعداد وشمار ایوان میں دے چاہے ان کیمرا دے اور بتایا کہ اس پر ہماری یہ تاریخ ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس پر واضح روڈ میپ دینا چاہیے، 3 مہینے بہت وقت ہوتا ہے، 3 مہینوں میں ہم آدھا ضرب عضب لڑ چکے تھے، اس لیے وقت ضائع کیے بغیر حکومت اس طرح کا کام کرے اور ہمیں حکومت کے اچھے کام کی حمایت کریں۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ یہ ہماری اپنی غلطی ہے کہ ان کو دوبارہ دعوت دی اور بات کی اور ان جرائم پیشہ افراد کو چھوڑوا دیا، ان لوگوں سے پوچھا ضرور جائے، کچھ نہیں تو ٹی وی پر لا کر قوم سے معافی منگوا لی جائے۔
’افغان مہاجرین کی باعزت واپسی ہونی چاہیے‘
افغان مہاجرین کی واپسی پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ جا رہے ہیں ان کی چیزیں چھینی جارہی ہیں، اسے بڑا ظلم کیا ہوسکتا ہے، اگر قانونی ہے اور جا رہے ہیں تو ان کا حق ہے کہ اپنی جائیداد ساتھ لے کر جائیں، ان کی چیزیں ساتھ لے جانے دیں، ہم سب اللہ کے سامنے جوابدہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کو نکالنا ہے تو باعزت طریقے سے بھیجیں، ایک قیدی یا بری طرح نہ نکالیں، وہ ہمارے بہن بھائی ہیں، اگر ہم اس طرح کا اخلاق ان کے ساتھ کریں گے تو خدانخواستہ کسی پر بھی مشکل وقت آسکتا ہے۔