ایم کیو ایم سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر ابھی کوئی بات نہیں ہوئی، سعد رفیق
مسلم لیگ(ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر ابھی تک کوئی بات نہیں ہوئی۔
خواجہ رفیق نے ان خیالات کا اظہار ایاز صادق اور بشیر میمن پر مشتمل مسلم لیگ(ن) کے وفد کے ہمراہ ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت سے کراچی کے علاقے بہادر آباد میں واقع دفتر میں ملاقات کے بعد کی۔
ان کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا جب منگل کو مسلم لیگ(ن) اور ایم کیو ایم پاکستان نے انتخابی اتحاد کا اعلان کیا لیکن ابھی اس اعلان کو چند ہی دن گزرے تھے کہ انہوں نے اسے سیٹ ایڈجسٹمنٹ تک محدود کردیا۔
منگل کو خالد مقبول صدیقی، فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال پر مشتمل ایم کیو ایم کے تین رکنی وفد نے ماڈل ٹاؤن لاہور میں نواز شریف اور شہباز شریف سے ملاقات کی تھی۔
ملاقات کے بعد مسلم لیگ (ن) نے اعلان کیا تھا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان انتخابی اتحاد بنانے کا فیصلہ گزشتہ سال اپریل میں اس وقت طے پایا تھا جب ایم کیو ایم نے شہباز کی زیر قیادت مخلوط حکومت میں شمولیت اختیار کی تھی۔
تاہم، اسی دن رات گئے سینئر ایم کیو ایم-پاکستان کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر امین الحق نے واضح کیا کہ یہ انتخابی اتحاد نہیں کیونکہ دونوں جماعتیں اپنے اپنے انتخابی نشان پر الیکشن لڑیں گی۔
اس کے بعد، ایم کیو ایم-پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا تھا کہ پارٹی نے مسلم لیگ(ن) کے ساتھ انتخابی اتحاد نہیں کیا بلکہ حالیہ ملاقات میں ملک کو درپیش مسائل کے حل پر اتفاق رائے ہوا ہے۔
کراچی میں آج پریس کانفرنس کے آغاز میں خالد مقبول صدیقی نے مسلم لیگ(ن) کے وفد کا خیرمقدم کیا اور امید ظاہر کی کہ دونوں جماعتوں کے درمیان تعلقات پاکستان کی جمہوریت اور سلامتی کے لیے اہم قدم ثابت ہوں گے۔
اس موقع پر سعد رفیق نے مسلم لیگ(ن) کی قیادت کا خیرمقدم کرنے پر ایم کیو ایم پاکستان قیادت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ دونوں جماعتیں سمجھتی ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کو عام آدمی کی جمہوریت میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، اب وسائل کی مساوی تقسیم کے لیے فارمولے طے کرنے اور اسے قانونی اور آئینی تحفظ دینے کا وقت آگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ صرف کراچی کا نہیں بلکہ ملک کے تمام شہروں کا ہے، اس لیے مسلم لیگ(ن) اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان اس شراکت داری سے ناصرف کراچی بلکہ پورے پاکستان کو فائدہ ہو گا۔
مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ صوبائی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کو بھی ایک حقیقت بنایا جانا چاہیے اور اس پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے، وسائل کی مساوی تقسیم اب صوبوں سے مقامی حکومتوں کو منتقل ہونی چاہیے۔
انہوں نے بلدیاتی نظام پر عملدرآمد نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مستقبل میں اہم سیاسی جماعتوں کو اس سلسلے میں کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ پاکستان کو سیاسی اور معاشی بحرانوں کا سامنا ہے۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھنا چاہیے اور جہاں ممکن ہو انتخابات سے قبل انتخابی ایڈجسٹمنٹ کرنی چاہیے، جہاں ممکن نہ ہو وہاں انتخابات کے بعد بننے والی حکومت اور اپوزیشن کو میثاق جمہوریت کے تحت کام کرتے ہوئے میثاق معیشت پر اتفاق کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس لیے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ(ن) کی دو ٹیمیں کام کر رہی ہیں جن کے ناموں کا اعلان چند دنوں میں کر دیا جائے گا تاکہ ہم آئندہ پارلیمنٹ کے ذریعے عام آدمی کے مفاد میں درکار قانونی اور آئینی اصلاحات پر بات کر سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی، پچھلے دنوں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے موضوع سے بات چیت شروع ہوئی تھی لیکن اب ہم سب اپنے سیاسی سفر میں اتنا آگے نکل چکے ہیں کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوتی رہے گی لیکن بنیادی کام اصلاحات کی جانب بڑھنا ہے۔
مسلم لیگ(ن) کے سینئر رہنما نے کہا کہ جمعیت علمائے پاکستان سمیت سندھ کے دیگر اسٹیک ہولڈرز سے بھی بات چیت کی گئی ہے، مسلم لیگ(ن) سندھ میں ایک ایسا اتحاد بنانا چاہتی ہے جو قومی خواہشات کی نمائندگی کرے اور کراچی اور صوبے کے دیگر شہروں کو نظرانداز کیے جانے کے اس عمل کو روکے۔
انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ دھاندلی نہ ہو اور ڈالے گئے ووٹ سے ہی نتائج آئیں، یہ صرف مسلم لیگ(ن) اور ایم کیو ایم کی ذمہ داری نہیں، یہ تمام ریاستی اداروں اور تمام سیاسی طاقتوں کی ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے تیار کیے جانے والے نئے منشور میں میں ججوں کی تقرری کے لیے عدالتی اصلاحات کے ساتھ ساتھ بیوروکریٹک اصلاحات پر بھی بات کی جائے گی اور اس منشور کو ایم کیو ایم کو بھی پیش کیا جائے گا۔
سعد رفیق نے مزید کہا کہ پھر احتساب کا ایک باب ہے، ہم نیب (قومی احتساب بیورو) کے قانون کو تسلیم نہیں کرتے، اگر احتساب کے ادارے کی ضرورت ہے تو اسے دباؤ اور سیاسی انجینئرنگ سے پاک ہونا چاہیے، لہذا اس سلسلے میں بہت سا کام کرنا ہے اور وقت بہت کم ہے، ہمارا اپنا منشور تیار کیا جا رہا ہے اور ہم مشترکہ سیاسی ایجنڈے کے ساتھ عوام کے سامنے جانے کی کوشش بھی کریں گے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان شراکت داری کامیابی سے چلتی رہی گی تو سعد رفیق نے کہا کہ یہ چلے گی نہیں بلکہ دوڑے گی۔
دریں اثنا، خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ پاکستان اس وقت بہت سے بحرانوں کا شکار ہے لیکن ملک کو درپیش اصل بحران کا تعلق نیت سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ آئین کو عوام دوست بنانا چاہیے، حکمران دوست آئین سے کام نہیں چلے گا۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ عام آدمی کو جمہوریت کے ثمرات منتقل کرنے کے لیے مقامی حکومتوں کو بااختیار بنایا جانا چاہیے، حکمرانی کے تیسرے درجے بشمول ضلع، شہر اور مقامی حکومتوں کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرح قانونی اور آئینی تحفظ فراہم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ نگران میئر اور ضلعی چیئرمین ہونے چاہئیں تاکہ انتخابات 90 دنوں میں کرائے جائیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما نے مزید کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کو صوبائی فنانس کمیشن ایوارڈ سے منسلک کیا جانا چاہیے اور دونوں کا حساب ایک ہی طریقے سے کر کے اسے ایک ساتھ جاری کیا جانا چاہیے۔