حکام نے ٹیکس نیٹ میں مزید 15 لاکھ افراد کو شامل کرنے کے منصوبے سے آئی ایم ایف کو آگاہ کردیا
پاکستان کی ٹیکس اتھارٹی کے اعلیٰ حکام نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو جون 2024 کے آخر تک مزید 15 لاکھ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے منصوبے سے آگاہ کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک سینیئر ٹیکس عہدیدار نے بتایا کہ یہ حکمت عملی آئی ایم ایف حکام کے ساتھ تکنیکی سطح کی بات چیت کے دوران شیئر کی گئی، یہ پاکستان کے مالیاتی فریم ورک کو تقویت دینے کی کوششوں میں ایک اہم سنگ میل کی نمائندگی کرتی ہے۔
تکنیکی ٹیم نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران ٹیکس وصولی کے حوالے سے کارکردگی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ٹیکس حکام کے ساتھ کئی مرتبہ بات چیت کی ہے، عہدیدار نے انکشاف کیا کہ آئی ایم ایف کے نمائندوں نے ٹیکس وصولی کی کوششوں پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
آئی ایم ایف کے تکنیکی عملے نے 2 نومبر کو 3 ارب ڈالر کے مختصر مدت کے قرض کے معاہدے کا پہلا جائزہ شروع کیا جو 10 نومبر کو ختم ہوا، بظاہر ایسا لگتا ہے کہ زیادہ تر اہداف حاصل کرلیے گئے ہیں، جو آئندہ ماہ دسمبر میں 71 کروڑ ڈالر کی قسط کے اجرا کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
عہدیدار نے بتایا کہ ہم نے آئندہ 8 ماہ میں محصولات کی وصولی کے لیے اپنے تخمینے آئی ایم ایف حکام کے ساتھ شیئر کردیے ہیں، آئی ایم ایف کی جانب سے نئے ٹیکس اقدامات کا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا۔
ایف بی آر کے اعلیٰ حکام نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ مالی سال 2024 کے لیے 94 کھرب 15 ارب روپے ٹیکس محصولات جمع کرنے کا تخمینہ اضافی اقدامات کی ضرورت کے بغیر پورا کرلیا جائے گا۔
مزید برآں عہدیدار نے ان افواہوں کو مسترد کر دیا کہ آئی ایم ایف ٹیکس وصولی کے ہدف میں اضافے کا مطالبہ کر رہا ہے یا تاجروں اور ریئل اسٹیٹ سیکٹر پر مزید ٹیکس لگانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
یہ یقین دہانی اضافی ٹیکس کے اقدامات کے بارے میں کسی بھی قیاس آرائی کی نفی کرتی ہے، عہدیدار نے کہا کہ سیکٹرل ٹیکس لگانا ہمارا اپنا فیصلہ ہے، آئی ایم ایف کی دلچسپی صرف مجموعی طور پر محصولات کی وصولی کی کارکردگی سے متعلق ہے۔
تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے ماضی میں متعدد کوششیں کی جا چکی ہیں، تاہم 8 فروری 2024 کو ہونے والے آئندہ عام انتخابات سے قبل اس شعبے پر ٹیکس لگانا بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ بہت سی ٹریڈرز یونینز کی سیاسی وابستگیاں ہیں۔
اسی طرح ایف بی آر کو ریئل اسٹیٹ سیکٹر پر عائد ٹیکسز پر نظر ثانی کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، یہ شعبہ بھی مضبوط سیاسی روابط کا حامل ہے۔
ان چیلنجز کے باوجود ٹیکس عہدیدار پراعتماد ہیں کہ ایف بی آر رواں مالی سال کا مجموعی ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔
ٹیکس دائرہ کار میں وسعت
عہدیدار نے انکشاف کیا کہ ٹیکس نیٹ ورک کو وسعت دینے کے لیے 145 دفاتر پورے ملک میں علاقائی ٹیکس دفاتر (آر ٹی اوز) میں قائم کردیے گئے ہیں۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ ہمارے پاس ایسے 10 لاکھ افراد کا ڈیٹا موجود ہے جنہیں ممکنہ طور پر ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جا سکتا ہے، یہ ڈیٹا منظم طریقے سے ان افراد کے حوالے سے اکٹھا کیا گیا ہے جنہوں نے بھاری لین دین اور دیگر سرگرمیاں کی ہیں لیکن فی الحال ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں، یہ ڈیٹا ملک بھر کے آر ٹی اوز کے ساتھ شیئر کیا جا چکا ہے۔
ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے لیے سرگرم عہدیداروں کا بنیادی کام نئے ٹیکس دہندگان کی شناخت کرنا ہوگا اور وہ موجودہ ٹیکس دہندگان کے حوالے سے ایسا کوئی اقدام نہیں نہیں اٹھائیں گے، یہ حکمت عملی موجودہ ٹیکس دہندگان پر بوجھ ڈالے بغیر ٹیکس بیس کو بڑھانے کے حکومتی عزم کی نشاندہی کرتی ہے۔
ٹیکس تجزیہ کاروں نے محتاط نقطہ نظر کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ صرف وقت ہی بتائے گا کہ کیا فیڈرل بورڈ آف ریونیو اس بار ٹیکس بیس کو وسیع کرنے میں کامیاب ہوگا یا نہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ ایف بی آر نے ماضی میں نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے لاکھوں ممکنہ ٹیکس دہندگان کا ڈیٹا موجود ہونے کے بارے میں ایسے ہی دعوے کیے تھے لیکن ٹیکس بیس میں کوئی خاص توسیع نہیں دیکھی گئی، اب اس موجودہ حکمت عملی کی تاثیر دیکھنا باقی ہے۔
خیال رہے کہ ٹیکس سال 2022 میں 48 لاکھ ٹیکس دہندگان نے اپنے ٹیکس گوشوارے جمع کرائے۔