اسرائیل کا مغربی کنارے پر بدترین چھاپہ، ’ہمارے پاس ہر گھنٹے ایک لاش ہوتی ہے‘
اسرائیل نے جمعرات کو جنین پر حملہ کردیا جو مغربی کنارے میں 2005 کے بعد ہونے والا بدترین حملہ تھا۔
فلسطین کا شہرجنین میں اسرائیلی فوج وقتاً فوقتاً چھاپے مارتی رہتی ہے لیکن جمعرات کو دھماکوں سے گونج اٹھا کیونکہ اسرائیلی فوجیوں کی مسلح گاڑیاں شہر کی سڑکوں میں داخل ہوگئیں اور انہوں نے رائفلز اور پائپ بموں سے لیس فلسطینی جنگجوؤں سے لڑائی شروع کردی۔
خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی وزارت صحت کے مطابق یہ لڑائی جمعرات کی شب تک جاری رہی اور اس میں 14 افراد جاں بحق ہوگئے، اقوام متحدہ کے ریکارڈ کے مطابق یہ کارروائی مغربی کنارے میں 2005 سے جاری حملوں میں سب سے زیاہ مہلک حملہ ہے۔
محمکہ صحت کا کہنا تھا کہ مغربی کنارے کے دوسرے علاقے میں 4 لوگ جاں بحق ہوگئے، جس کے نتیجے میں 7 اکتوبر کے حماس حملے کے بعد سے جاری اسرائیل-حماس جنگ کے دوران مغربی کنارے میں مسلح اسرائیلی آبادکاروں کی فائرنگ کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے فلسطینیوں کی مجموعی تعداد 180 سے زائد ہوگئی ہے۔
اہلکار کے مطابق اسی دوران مغربی کنارے میں ہونے والے پر تشدد واقعات میں 3 اسرائیلی بھی ہلاک ہوگئے۔
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر 39 سالہ فلسطینی انجینئر نے کہا ’یہ روز ہوتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ ہماری زندگی ہے‘ جس کے بعد گولیاں چلنے سے سڑک پر موجود تماشائی خوف زدہ ہوگئے۔
تنبیہ
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے جنگجوؤں نے 7 اکتوبر کو اسرائیل میں داخل ہوکر مختلف مقامات پر حملہ کر دیا، جس کے نتیجے میں حماس اور اسرائیلی میں جنگ چھڑ گئی، حماس کی کارروائی میں اسرائیلی انتظامیہ کے مطابق 1400 سے زائد افراد مارے گئے، جن میں زیادہ تر شہری تھے۔
اسرائیل نے حماس کو تباہ کرنے کا عہد کرتے ہوئے فضائی اور زمینی حملوں کے ذریعے جوابی کارروائی کی، جس میں حماس کے زیر اثر غزہ پٹی کے محکمہ صحت کے مطابق اب تک 11 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں، جس بچوں اور خواتین سمیت عام شہری شامل ہیں۔
مقبوضہ مغربی کنارہ 1967 کی عرب-اسرائیل جنگ کے بعد سے اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقہ ہے، وہاں بھی فلسطینی جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کی غرض سے اسرائیلی فوج کے چھاپوں میں اضافہ ہوا ہے اور علاقہ میں کشیدگی جاری ہے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ جمعرات کو جنین میں مارے گئے چھاپے میں 20 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
پہاڑ کی چوٹی سے، دھوئیں اور سائرن کے درمیان، بلند و بالا عمارتوں سے گولیوں کی آواز گونجی۔
ایک اسرائیلی ڈرون نے شہر کے گرد چکر لگاتے ہوئے لڑائی کے عروج پر ہر پانچ منٹ بعد تازہ دھماکے ہوئے۔
ایک مقامی نے اے ایف پی کو بتایا کہ جنین پناہ گزین کیمپ پر صبح کے وقت پرچے گرا کر انہیں متنبہ کیا گیا کہ وہ عسکریت پسند دھڑوں سے بچیں، یہ اقوام متحدہ کے مطابق تقریباً 23ہزار لوگوں کی رہائش گاہ ہے،
غزہ میں دوپہر کے وقت، فضا سے مزید پمفلٹ پھینکے گئے کیونکہ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ لڑائی کی وجہ سے بچے اپنے اسکولوں میں پھنس گئے تھے۔
42 سالہ ڈینٹسٹ نے اسرائیلی فوجیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اور اپنے گلے پر ہاتھ پھیرنے کے بعد کہا جتنا آپ سمجھتے ہیں ہمیں اس سے بھی زیادہ برا لگتا ہے۔
انہوں نے کہا اسرائیلی کہتے ہیں کہ غزہ میں مسئلہ حماس ہے، مسئلہ حماس کا نہیں مسئلہ قبضے کا ہے۔
’ہماری زمین‘
اسرائیلی فوجیوں کو چھپے ہوئے جنگجوؤں سے مقابلہ کرنا پڑا، سڑکوں پر موجود درجنوں افراد زخمیوں کی مدد کے لیے آگے بڑھے اور ایمبولینسوں کے لیے راستہ بنایا۔
غزہ کی مزاحمتی تحریک اور حکمران حماس کو یورپی یونین اور امریکا نےدہشت گرد تنظیم کے طور پر بلیک لسٹ کر رکھا ہے جبکہ حماس غزہ پٹی پر 2007 سے حکمران ہے۔
اسرائیلی فوج کی کارروائی کے دوران وہاں ایک پک اپ ٹرک میں لاشیں اور زخمیوں کو لے جانے کے لیے انتظار کر رہا تھا۔
طبی عملے کے 35 سالہ رکن محمد الاحمد نے اسرائیلی فوجیوں کے بارے میں کہا کہ وہ وحشیانہ انداز میں اندھا دھند گولی چلاتے ہیں، ہر گھنٹے ہمارے پاس ایک لاش ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق غزہ کے ایک مردہ خانے میں نوجوانوں کے بے جان چہرے خون سے رنگے ہوئے تھے اور وہاں 45 سالہ محمد عقیل کے بھتیجے کی لاش قریبی کمرے میں پڑی ہوئی تھی۔
محمد عقیل نے کہا کہ جو چیز ہمیں مضبوط رکھتی ہے وہ ہماری ثابت قدمی اور خدا ہے، یہ زمین ہماری سرزمین ہے۔