خیرپور میں ملازمہ قتل کیس کے مرکزی ملزم کا ڈی این اے میچ کر گیا، نگران صوبائی وزیر
نگران صوبائی وزیر قانون و انسانی حقوق محمد عمر سومرو نے تصدیق کی ہے کہ 9 سالہ فاطمہ فریرو کے قتل کیس میں مرکزی ملزم پیر اسد شاہ کے ڈی این اے کے نمونے متاثرہ بچی کے کپڑے سے حاصل شدہ نمونے سے میچ کر گئے ہیں۔
کمسن فاطمہ فریرو اثر و رسوخ کے حامل مقامی پیر اسد شاہ کی حویلی میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی تھی اور رواں سال 14 اگست کو پر اسرار طور پر مردہ حالت میں پائی گئی تھی۔
بعد ازاں پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بچی کے ساتھ جسمانی تشدد کی تصدیق ہوئی تھی۔
اس کے بعد کم سن ملازمہ کی والدہ شمیم خاتون کی شکایت پر رانی پور تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 اور 34 کے تحت مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی گئی تھی۔
تحقیقات کے دوران پولیس نے ملزم پیر اسد شاہ، ان کی اہلیہ حنا شاہ، سسر پیر فیاض شاہ اور امتیاز میراثی کو حراست میں لے لیا تھا۔
سندھ کے نگران وزیر محمد عمر سومرو نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ ابتدائی طور پر مرکزی ملزم کے ڈی این اے کے نمونے میچ نہیں ہوئے کیونکہ محکمہ صحت کے افسران نے ملزم کے اثر و رسوخ کی وجہ سے نمونے ضائع کر دیے تھے۔
تاہم جب پنجاب کی ایک لیب میں انہی نمونوں کو جانچا گیا تو وہ میچ کر گئے۔
اس سے قبل لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنس جامشورو کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق بچی کے کپڑوں سے حاصل کردہ سیمین کے داغوں میں سے ’مکس ڈی این اے کی پروفائلز‘ ملیں، جس کی ایک نقل ڈان ڈاٹ کام نے بھی دیکھی۔
مقدمے کی تفصیل
لڑکی کے والد ندیم علی نے ابتدائی طور پر دعویٰ کیا تھا کہ جب اسے 14 اور 15 اگست کی رات ایک نجی ہسپتال لے جایا گیا، تو ڈاکٹروں کی جانب سے اشارہ دیا گیا تھا کہ لڑکی کو پیٹ سے متعلق کچھ بیماری تھی۔
بعد ازاں ہسپتال سے ڈسچارج کے بعد لڑکی کی اپنے گھر میں موت واقع ہو گئی۔
لڑکی کی تشدد کے نتیجے میں موت کے دعوے اس وقت سامنے آئے جب لڑکی کی ویڈیوز وائرل ہوئیں، جس میں اس پر تشدد کے نشانات تھے، یہ بات معلوم نہیں ہوسکی کہ ویڈیوز کس نے لیک کیں، پولیس ٹیم نے ویڈیوز حاصل کیں اور علاقے کے متعدد سماجی کارکنان سے بھی ملاقات کی۔
ضلع میں ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد پولیس نے واقعے کا نوٹس لیا اور ڈی ایس پی عبدالقدوس کلواڑ نے لڑکی کے والدین سے ملاقات کی، سماجی کارکنان اور وائرل ویڈیوز دیکھنے کے بعد ڈی ایس پی نے ڈی آئی جی کو رپورٹ دی کہ معاملہ سنگین ہے اور قبرکشائی کا مطالبہ کیا۔
سول جج کی ہدایت پر بچی کی قبر کشائی کے لیے میڈیکل ٹیم تشکیل دی گئی۔
ڈاکٹر ارشاد میمن نے ڈان ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ضلع نوشہرو فیروز کے ایک قبرستان میں قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم کا عمل مکمل کرنے کے بعد کمسن ملازمہ کی میت کی دوبارہ تدفین کر دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک طویل طریقہ کار تھا جس میں تقریباً 100 افراد شامل تھے جن میں پولیس، ضلعی انتظامیہ اور محکمہ صحت کے افسران کے ساتھ ساتھ ان کا معاون عملہ بھی شامل تھا۔
17 اگست کو خیرپور پولیس نے ایک اور مرکزی ملزم کو بھی گرفتار کیا، جسے بعد میں پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا۔
ایک اور جوان ملازمہ نے الزام عائد کیا کہ زیر حراست پیر اسد شاہ اور ان کی اہلیہ حنا شاہ نے اس پر تشدد کیا۔
خیرپور کے ایس ایس پی نے بتایا تھا کہ 13 سالہ بچی نے یہ دعویٰ ایک ویڈیو میں کیا اور پولیس اس کے بیان کو فاطمہ کی والدہ کی جانب سے اسد شاہ اور اس کی اہلیہ کے خلاف درج کرائی گئی ایف آئی آر کی کیس فائل کا حصہ بنا رہی ہے۔