بلوچستان میں قدم جمانے کیلئے مسلم لیگ (ن) کا باپ پارٹی کو ساتھ ملانے کا امکان
سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف کا آئندہ ہفتے بلوچستان کا دورہ کرنے کا امکان ہے تاکہ آئندہ عام انتخابات کے پیشِ نظر ایم کیو ایم (پاکستان) کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) سے بھی ہاتھ ملایا جا سکے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پارٹی ذرائع نے بتایا کہ دورہ بلوچستان کے دوران نواز شریف کی کچھ الیکٹیبلز سے ملاقات بھی متوقع ہے اور بی اے پی کے ساتھ باضابطہ اتحاد کا اعلان کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں خاطر خواہ تعداد میں نشستیں حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں، جنہیں وہ آنے والے عام انتخابات کے بعد وفاق میں حکومت بنانے کے لیے بہت اہم سمجھتے ہیں۔
پارٹی رہنما نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں مولانا فضل الرحمٰن کی زیر قیادت جے یو آئی (ف) کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کا اتحاد تقریباً یقینی ہے۔
تاہم چوہدری شجاعت حسین کی زیرقیادت مسلم لیگ (ق) اور جہانگیر خان ترین کی استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کو ساتھ ملانے سے مسلم لیگ (ن) گریزاں نظر آتی ہے۔
چوہدری شجاعت حسین اور جہانگیر ترین دونوں نے گزشتہ سال اپریل میں عمران خان کی حکومت گرانے میں اپنا کردار ادا کیا اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ یہ طے کیا تھا کہ عام انتخابات میں ان کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جائے گی۔
تاہم بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے میں مسلم لیگ (ن) بظاہر طاقتور حلقوں کی واحد پسندیدہ جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے اور اب اپنی مرضی کی شرائط پر کھیل رہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر رہنما نے بتایا کہ اگر چوہدری شجاعت اپنے دونوں بیٹوں اور پارٹی سیکریٹری جنرل طارق بشیر چیمہ کے لیے نشستیں چاہتے ہیں تو آنے والے دنوں میں مسلم لیگ (ق) کو مسلم لیگ (ن) میں ضم ہونے کا آپشن دیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک آئی پی پی کا تعلق ہے تو اس کے کچھ رہنما شریف برادران سے رابطہ کر رہے ہیں اور ان سے پنجاب میں اپنے خلاف امیدوار کھڑے نہ کرنے کا کہہ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور آئی پی پی کے سیاسی اتحاد کا کوئی امکان نظر نہیں آتا، تاہم کچھ آئی پی پی رہنما، جو شریف برادران کے بہت قریب رہے ہیں، وہ لاہور اور دیگر جگہوں پر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر انتخابات سے قبل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو باقاعدہ طور پر غیرمؤثر کردیا گیا تو مسلم لیگ (ن) پنجاب میں اکثریتی جماعت بن کر ابھرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) مرکز اور پنجاب دونوں میں ایک مضبوط حکومت چاہتی ہے کیونکہ اس نے متعلقہ حلقوں کو بتا دیا ہے کہ معیشت تب ہی مستحکم ہو گی جب ایک بھاری مینڈیٹ والی حکومت قائم ہو گی۔
سندھ میں پارٹی رہنماؤں کے تحفظات
دریں اثنا سندھ سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے ایک سینیئر رہنما محمد زبیر نے شریف برادران کی جانب سے صوبے میں پارٹی کی باگ ڈور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سابق سربراہ بشیر میمن کے حوالے کرنے کے فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے، جنہوں نے مسلم لیگ (ن) میں ایک ماہ قبل شمولیت اختیار کی تھی۔
نواز شریف کی تجویز پر مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے بشیر میمن کو مسلم لیگ (ن) سندھ کا صدر مقرر کردیا ہے۔
اس تعیناتی کو بشیر میمن کی ان ’خدمات‘ کا نتیجہ سمجھا جارہا ہے جو انہوں نے ایف آئی اے کے سربراہ کے طور پر شریف خاندان کو فراہم کیں۔
قبل ازیں بشیر میمن نے کہا تھا کہ انہوں نے سابق وزیراعظم عمران خان کے حکم پر نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے خلاف مقدمات درج کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
محمد زبیر اور پارٹی کے کچھ دیگر رہنماؤں نے مبینہ طور پر سندھ میں پارٹی کی قیادت کرنے کے لیے بشیر میمن کی تعیناتی پر سوال اٹھائے ہیں، ان کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے صوبے میں پارٹی کارکنوں کو غلط پیغام جائے گا، تاہم محمد زبیر نے معاملے پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
مسلم لیگ (ن) سندھ میں 4 جماعتی اتحاد کی تشکیل کا بھی ارادہ رکھتی ہے، جس میں ممکنہ اتحادی ایم کیو ایم (پاکستان)، جے یو آئی (ف) اور پیر پگارا کی زیرقیادت گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) ہوں گے۔
دریں اثنا نواز شریف نے گزشتہ روز گورنر ہاؤس میں گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن سے ملاقات کی اور ان سے 4 سال قبل ٹریفک حادثے میں ان کی اہلیہ اور بیٹے کی وفات پر تعزیت کی۔