• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

چیف سلیکٹر کے عہدے سے استعفیٰ ٹیم کی کارکردگی نہیں، فائنڈنگ کمیٹی کی وجہ سے دیا، انضمام الحق

شائع November 9, 2023
انضمام الحق کو رواںسال اگست میں چیف سلیکٹر بنایا گیا تھا— فائل فوٹو: اے پی
انضمام الحق کو رواںسال اگست میں چیف سلیکٹر بنایا گیا تھا— فائل فوٹو: اے پی

قومی ٹیم کے سابق کپتان نضمام الحق نے کہا ہے کہ میں نے چیف سلیکٹر کے عہدے سے استعفیٰ ٹیم کی کارکردگی کی وجہ سے نہیں بلکہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے میرے خلاف بنائی گئی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی وجہ سے دیا تھا۔

جیو نیوز کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ میں گفتگو کرتے ہوئے انضمام الحق نے کہا کہ میں نے ٹیم کی خراب کارکردگی کی وجہ سے استعفیٰ نہیں دیا تھا بلکہ بورڈ نے میرے حوالے سے ایک فائنڈنگ کمیٹی بنائی تھی جس کے بعد میں نے کہا تھا کہ میں مستعفی ہو جاتا ہوں اور آپ اپنی تحقیقات مکمل کر لیں اور اس کے بعد ہم بیٹھ کر فیصلہ کر لیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے اور بورڈ کو ایک ہی ہونا چاہیے تھا جس سے اچھا میسج جاتا تھا، جس وقت یہ بیان دیا گیا تھا کہ میں نے ٹیم انضمام اور بابر کو دے دی تھی، اگر اس وقت یہ بیان دیا جاتا کہ چیف سلیکٹر بھی ہمارا ہے، ٹیم بھی ہماری ہے اور کپتان بھی ہمارا ہے اور یہ میسج ہمارے بورڈ کی طرف سے لڑکوں کو جاتا تو ان کے دل بڑے ہو جاتے لیکن اس کے بجائے یہ میسج ملا کہ چیف سلیکٹر پر ایک فائنڈنگ کمیٹی بیٹھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 1992 سے 2023 کے ورلڈ کپ تک ایک چیز دیکھی ہے کہ جب بھی قومی ٹیم کی پرفارمنس بری ہوئی ہے تو کرکٹ نہ کھیلنے والے لوگ سارا ملبہ کرکٹرز پر ڈال کر ایک طرف ہو جاتے ہیں۔

مفادات کے ٹکراؤ اور کھلاڑیوں کے ایجنٹ کی کمپنی کے حوالے سے سوال پر چیف سلیکٹر نے کہا کہ سایا کمپنی کھلاڑیوں کے معاملات کو دیکھتی ہے، وہ میرے معاملات بھی دیکھتے ہیں، ایسی کمپنی آئی سی سی کی جانب سے منظور شدہ ہوتی ہے اور بورڈ کے پاس ان کا سارا ریکارڈ موجود ہوتا ہے، اسی طرح یازو کمپنی 2020 میں جب کووڈ تھا تو ہم نے ایمازون پر کام کرنے کے لیے بنائی تھی کہ جس میں انگلینڈ میں جو سائیکلوں کے ہیلمٹ ہوتے ہیں، یہ اس کمپنی نے دینے تھے لیکن اس میں ہماری کوئی ٹرانزیکشن شروع ہی نہیں ہوئی، اس کا سارا ریکارڈ موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ سینٹرل کنٹریکٹ جون میں دیا جاتا ہے اور میں ستمبر میں آیا تھا، جب ان سے ستمبر تک مسئلہ حل نہ ہوا تو چیئرمین پی سی بی نے آن ریکارڈ کہا کہ انضمام سے کہو، وہ مسئلہ حل کرا دیتا ہے، جس دن ٹیم ورلڈ کپ کے لیے جا رہی تھی، اس دن رات پی سی بی کے دفتر میں بیٹھ کر یہ مسئلہ حل کیا گیا اور پھر ٹیم گئی ہے۔

سابق کپتان نے کہا کہ آپ کو تو مجھے کریڈٹ دینا چاہیے تھا کہ جو مسئلہ تین چار مہینوں سے حل نہیں ہو رہا تھا اس کو بیٹھ کر حل کرا دیا اور بعد میں آپ مجھ پر ہی الزام لگا رہے ہیں، چیئرمین بورڈ بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے فائنڈنگ کمیٹی بنائی تو میں نے ان سے جا کر کہا ہے کہ یہ خبریں آ رہی ہیں کہ انضمام نے بلیک میل کیا ہے کہ اگر آپ کھلاڑیوں کا کنٹریکٹ نہیں کریں گے تو ٹیم ورلڈ کپ پر نہیں جائے گی تو آپ یازو کمپنی کی تحقیق ضرور کرائیں لیکن اس چیز کو تو کہیں کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔

سابق عظیم بلے باز نے کہا کہ مجھے جواب دیا گیا کہ ہم ایسا کوئی بیان نہیں دے سکتے، میں نے کہا کہ آپ کیوں نہیں دے سکتے، میں آپ کا چیف سلیکٹر ہوں اور اگر آپ میری ذمہ داری نہیں لیں گے تو کون لے گا تو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی ذمہ داری نہیں لے سکتے اور آپ پر فائنڈنگ کمیٹی بنے گی، اس بات پر میں نے کہا کہ اگر آپ نے فائنڈنگ کمیٹی بنانی ہے تو میں مستعفی ہو جاتا ہوں تاکہ آپ تحقیق کر لیں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے اور میرے وکیل نے بورڈ کو ای میل کی کہ جو بھی فائنڈنگ ہو رہی ہے تو ہمیں بلایا جائے اور ہمیں ساری چیزیں بتائی جائیں لیکن نہ ہماری ای میل کا جواب دیا جا رہا ہے نہ ہمیں بلایا جا رہا ہے اور نہ بتایا جا رہا ہے کہ کس بات کی تحقیق ہو رہی ہے جبکہ مجھے یہ بات بھی ٹی وی سے پتا چلی ہے کہ بورڈ نے میرا استعفیٰ قبول نہیں کیا۔

انضمام نے ورلڈ کپ کے لیے ٹیم کے انتخاب میں بورڈ کی جانب سے انہیں اور کپتان بابر اعظم کو مکمل اختیار دینے کے پی سی بی کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ میں اس ٹیم کے پیچھے کھڑا ہوں اور بری کارکردگی کے بعد بھی پیچھے نہیں ہٹوں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پھر چیئرمین پی سی بی نے ایشیا کپ کے بعد بیان دیا کہ میں ورلڈ کپ کے لیے تمام سابق کپتانوں کو بلا کر ٹیم کی سلیکشن کرتا ہوں، میں اس اجلاس میں نہیں گیا، مجھے لگا یہ اجلاس صحیح نہیں ہے کیونکہ آپ کسی کی عزت ہی نہیں کر رہے ہیں، دنیا میں کہیں ہوا ہے کہ اس طرح سے کپتانوں کو بلا کر سلیکشن ہوئی ہو، تو آپ بچنے کی کوشش نہ کریں۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان کی افغانستان کے ہاتھوں شکست کا 2007 ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی آئرلینڈ کے ہاتھوں شکست سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے، اس افغانستان کی ٹیم نے تو آسٹریلیا کے لیے بھی مشکل ڈال دی تھی، اگر کل میکسویل ون ڈے کرکٹ کی بہترین اننگز نہ کھیلتا اور آسٹریلیا ان سے ہار جاتا تو کیا ہم ان سے بھی کہتے کہ کپتانی چھوڑ دیں۔

خیال رہے کہ بھارت میں جاری ورلڈ کپ میں قومی کرکٹ ٹیم کی مسلسل ناقص کارکردگی کے بعد ٹیم سلیکٹر اور کپتان سمیت ٹیم انتظامیہ اور بورڈ پر تنقید کی جا رہی تھی لیکن اسی دوران ٹیم کے انتخاب میں مفادات کے ٹکراؤ کے حوالے سے میڈیا میں رپورٹس آئی تھیں۔

میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ کھلاڑیوں کی منیجمنٹ کمپنی میں انضمام الحق کے حصص ہیں جو پی سی بی میں رجسٹرڈ ہے، رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ بابراعظم اور محمد رضوان سمیت قومی ٹیم کے کئی نمایاں کھلاڑی بھی مذکورہ کمپنی سے منسلک ہیں۔

بورڈ نے ان رپورٹس کی تحقیقات کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی تھی جس پر انضمام نے چیف سلیکٹر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024