شہدا کے خاندانوں کا ’فوجی عدالتیں بحال‘ کرنے کا مطالبہ
شہدا کے خاندانوں نے ’فوجی عدالتوں کی بحالی‘ کا مطالبہ کر دیا۔
نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں شہدا فورم نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ’فوجی عدالتیں‘ اور سیکشن 2 ون ڈی بھی بحال کردیا جائے۔
پریس کانفرنس کے دوران انور زیب نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ آپ نے سپریم کورٹ کا فیصلہ دیکھا ہوگا جس میں فوجی عدالتیں ختم کردی گئی ہیں، ہم سمجھتے ہیں یہ بلوائیوں اور شرپسندوں کے لیے سہولت کا باعث بن جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ وہ پیر (13 نومبر) کو سپریم کورٹ میں اس حوالے سے درخواست دائر کریں گے اور کہا کہ شہدا کا خون ضائع نہیں جانا چاہیے اور عوام سے اپیل کی وہ سپریم کورٹ پر فوجی عدالتیں بحال کرنے کے لیے زور دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سیکشن 2ون ڈی بحال ہوجانا چاہیے، آپ مجھے بتائیں ایک عام جج جس کے پاس کوئی سیکیورٹی یا دیگر وسائل نہ ہوں تو وہ کیسے بڑے دہشت گردوں کے خلاف اہم فیصلے دے سکتا ہے۔
نوابزادہ جمال رئیسانی نے کہا کہ ہم نے جو قربانیاں دی ہیں وہ ملک کے دفاع کے لیے ہیں اور کسی کے ذاتی فائدے کے لیے قربانیاں نہیں دی گئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ شہدا کے خاندانوں کے لیے درد کا باعث بن رہا ہے اور یہ ہماری سیکیورٹی کمپرومائز کر رہا ہے۔
جمال رئیسانی نے کہا کہ فوجی عدالتوں کی بندش سپریم کورٹ نے کی ہے اور ہم اس کی بحالی کے لیے جمع ہوگئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شہدا نے قربانیاں دی ہیں اور فوجی عدالتوں کی بحالی سے شہدا کے ورثا کو انصاف ملے گا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے 23 اکتوبر کو فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستیں منظور کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کو کالعدم قرار دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے6 صفحات پر مشتمل مختصر فیصلے میں کہا تھا کہ آرمی ایکٹ کی سیکشن ڈی2 کی ذیلی شقیں ایک اور دو کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ آرمی ایکٹ کی سیکشن 59(4) بھی کالعدم قرار دی جاتی ہے۔
سپریم کورٹ کے 1-4 کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ فوجی تحویل میں موجود تمام 103 افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوگا۔
عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ 9 اور 10 مئی کے واقعات کے تمام ملزمان کا ٹرائل متعلقہ فوجداری عدالتوں میں ہوں گے اور سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ہونے والے کسی ٹرائل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ 1-4 کی اکثریت سے سنایا گیا تھا، جسٹس یحیٰی آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا، سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کے خلاف ریاست کی جانب سے فل کورٹ کے سامنے اپیل کی جاسکتی ہے جہاں حتمی فیصلہ ہوگا۔