• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

اسلام آباد ہائیکورٹ: شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں ضمانت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

شائع November 8, 2023
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس میں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی درخواستوں کی سماعت کی — فائل فوٹو: ڈان
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس میں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی درخواستوں کی سماعت کی — فائل فوٹو: ڈان

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وائس چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں ضمانت اور فرد جرم عائد کرنے کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس میں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی درخواستوں پر سماعت کی۔

دوران سماعت شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے مقدمے کی ایف آئی آر پڑھی اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آفیشل سیکریٹ انفارمیشن یا سائفر کو غیر قانونی رکھنا اور اس کا استعمال کرنا جرم ہے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں، یہ سب میں نہیں بلکہ ایف آئی آر کہہ رہی ہے، میرا تو نام بس آخر میں لکھا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے سابق وزیراعظم کی درخواست ضمانت خارج ہوئی اور پھر میرے مؤکل کی، اعظم خان اور اسد عمر کا نام چالان میں نہیں ہے جبکہ ایف آئی آر میں سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان اور اسد عمر کا ذکر ہے، ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت خارج کر دی جبکہ اسد عمر کی ضمانت کنفرم کی۔

ان کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کو چالان کی کاپی احتجاج کرنے پر فراہم کی گئی، 23 اکتوبر کو درخواست گزار پر فرد جرم عائد کر دی گئی اور درخواست گزار کے خلاف غیر قانونی کیس بنایا گیا، سائفر کیس میں ابھی تک ٹرائل کورٹ نے ہمیں ریکارڈ کی کاپیاں فراہم نہیں کیں، ہمیں ابھی تک صرف 161 اور 164 کے بیانات کی کاپیاں فراہم کی گئی ہیں، 28 گواہان میں سے تین کا بیان قلم بند ہو چکا ہے جبکہ 25 گواہان ابھی باقی ہیں۔

اس موقع پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ گزشتہ روز جن تین گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے وہ مرکزی گواہ نہیں ہیں۔

علی بخاری نے مؤقف اپنایا کہ ہمیں صرف اتنا بتایا جائے کہ میری ڈیوٹی کیا تھی اور کیس کیا ہے؟ 8 مارچ 2022 کو سائفر آیا اور 27 مارچ 2022 کو جلسے میں بتایا گیا، میری تقریر کو ہی میرے خلاف استعمال کیا گیا اور وہاں سے میرا کردار شروع ہوگیا۔

علی بخاری نے شاہ محمود قریشی کی پریڈ گراؤنڈ جلسے کی تقریر کی ٹرانسکرپٹ پڑھی اور کہا کہ شاہ محمود قریشی نے نہ کسی چیز کا، نہ ہی کسی ملک کا یا کسی شخص کا نام لیا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ یعنی کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ آپ نے سائفر کا ٹرانسکرپٹ ڈسکلوز نہیں کیا؟ سائفر آنے کے بعد وزیر خارجہ اور سیکریٹری خارجہ نے مشاورت کی کہ سائفر کہاں کہاں جائے گا؟۔

علی بخاری نے جواب دیا 7 مارچ 2022 کو سائفر آیا اور 8 مارچ 2022 کو ہی کابینہ کے اجلاس میں لایا گیا، کابینہ اجلاس کے ایجنڈے میں جو بھی معاملہ شامل کیا جاتا ہے وہ پرنسپل سیکریٹری کرتے ہیں جو مقدمے میں ہی نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزارت خارجہ کا کام ہر معاملے سے وزیراعظم کو بذریعہ پرنسپل سیکریٹری آگاہ کرنا ہے، وزیر اعظم کے ساتھ معلومات شیئر کرنا شاہ محمود قریشی کی بطور وزیر خارجہ آئینی ذمہ داری تھی، اگر وزیر اعظم کے ساتھ معلومات شیئر نہ کرتے تو حلف کی خلاف ورزی ہوتی۔

وکیل علی بخاری نے کہا کہ اعظم خان مجسٹریٹ کے سامنے اپنا بیان قلمبند کروا چکے جس کو چالان کا حصہ بنایا گیا ہے، اس مقدمے میں چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کا کردار مختلف ہے۔

انہوں نے رولز آف بزنس کیبنٹ سیکریٹریٹ عدالت کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا کہ سائفر رکھنے، سنبھالنے کی ذمہ داری وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری کی تھی، کابینہ کا ایجنڈا تیار کرانا، وزرا اور وزیراعظم کو اجلاس کے بارے میں بتانا بھی پرنسپل سیکریٹری کی ذمہ داری تھی، دلچسپ بات یہ ہے کہ پرنسپل سیکریٹری کو چالان میں بطور ملزم شامل ہی نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے وزیر خارجہ کی فراہم کردہ معلومات کو کابینہ کے سامنے رکھنا ہوتا ہے، شاہ محمود قریشی کے خلاف کیس سزائے موت کا تو نہیں ہے، پراسیکیوشن کا پورا کیس درست مان لیا جائے تو بھی دو سال کی سزا بنتی ہے۔

شاہ محمود قریشی کے وکیل نے کہا کہ ایف آئی آر 15 اگست 2023 کو ہوئی تھی، سائفر آنے کے 5 ماہ بعد انکوائری کا کہا گیا، کیا وزارت داخلہ اس قسم کے معاملات کی تفتیش کرسکتی ہے؟، وزارت داخلہ کے پاس ایسے کون سے اختیارات ہیں جس کے تحت وہ انکوائری کرسکیں، اس کیس میں سقم ہی سقم موجود ہیں۔

انہوں نے شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ میرے مؤکل کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں لہٰذا استدعا ہے کہ ضمانت منظور کی جائے۔

ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ 9 اکتوبر کو نقول شاہ محمود قریشی کو دی گئیں تھیں، 17 اکتوبر کو شاہ محمود قریشی نے 9 اکتوبر کے آرڈر پر دستخط کیے تھے، 23 اکتوبر کو قانونی تقاضے پورے کرکے فرد جرم عائد ہوئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ قانون میں صرف کاپیاں فراہم کرنے کا ذکر ہے، ملزم کے وصول کرنے کا نہیں، مقدمہ اس عدالت کے دائرہ اختیار میں تھا مگر لاہور ہائی کورٹ کا ایک سال تک حکم امتناع رہا، ایف آئی اے نے حکم امتناع کے اخراج اور انکوائری مکمل ہونے کے بعد شکایت پر مقدمہ درج کیا، کچھ آڈیو لیکس بھی اس کیس میں تھیں، شاہ محمود قریشی دو مرتبہ وزیر خارجہ رہے، ان کی تقریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اس کی حساسیت کا علم ہے۔

اسپیشل پراسیکیوٹر نے شاہ محمود قریشی کی تقریر کا متن پڑھ کر سنایا اور کہا کہ شاہ محمود قریشی کی تقریر کو تسلیم کرتے ہیں، شاہ محمود قریشی تقریر میں کہہ رہے ہیں یہ چیئرمین پی ٹی آئی تمہاری امانت ہے، یہ راز ہے اور یہ راز تمہیں (چئیرمین پی ٹی آئی کو) دے رہا ہوں، پٹیشنر نے مرکزی ملزم کی تقریر سے پہلے تقریر کر کے یہ ساری باتیں کیں، مرکزی ملزم کی تقریر سے قبل عوانئ اجتماع میں یہ الفاظ جرم میں معاونت اور اشتعال دلانے کے زمرے میں آتے ہیں۔

ان کا کہناتھا کہ غیرت مند قوموں اور ملکی غیرت جیسے الفاظ کا استعمال کرکے اشتعال دلانے کی کوشش کی گئی، شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس میں معاونت کے ثبوت موجود ہیں، مزید انکوائری کی ضرورت نہیں ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ شاہ محمود قریشی کے خلاف چارج معاونت کا ہی ہے؟ سائفر اپنے پاس رکھنے اور غلط استعمال کا تو نہیں؟۔

اسپیشل پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جی بالکل، شاہ محمود قریشی پر چارج معاونت کا ہی ہے، شاہ محمود نے سائفر کے متعلق پی ٹی وی پروگرام میں کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے درست طور پر اسے ڈسکلوز کیا، دنیا بھر میں کہیں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی نے سائفر کی معلومات یوں عام کی ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ صرف سیکریٹری خارجہ کو اس بات کی اجازت دینے کا اختیار ہے کہ سائفر کس کس کے پاس جائے گا، وہ بھی عوام تک پہنچانے کے لیے نہیں، خاص شخصیات کو سائفر کی کاپی پہنچانے سے متعلق ہے، شاہ محمود قریشی نے سنگین جرم کیا اور وہ ضمانت جیسی رعایت کے مستحق نہیں۔

اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہم 15 سے 20 دن میں سائفر کیس کا ٹرائل مکمل کر سکتے ہیں، اگر عدالت ہمیں 15 سے 20 روز یا زیادہ سے زیادہ ایک ماہ دے تو ٹرائل مکمل کر دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہ تو ٹرائل آگے نہیں بڑھنے دیتے، یہ کہتے ہیں ہر سماعت پر تین تین گواہوں کے بیانات ریکارڈ کریں، سائفر کیس کا ٹرائل زیادہ سے زیادہ ایک ماہ میں مکمل ہو جائے گا۔

ذوالفقار عباس نقوی نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیر خارجہ وزیراعظم کو سائفر کی مندرجات ڈسکلوز کرنے سے منع کرتے، ضمانت تب دی جاتی ہے جب ملزم کے خلاف شواہد موجود نہ ہوں، ہماری گزارش یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی بھی اس جرم کے ارتکاب میں برابر کے شریک ہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ یہ جیل ٹرائل ہے، ان کیمرا ٹرائل نہیں، جیل ٹرائل کس انداز میں چل رہا ہے۔

اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے مؤقف اپنایا کہ اٹارنی جنرل نے ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کو بتایا ہے کہ جیل ٹرائل سے متعلق درخواست گزار کے تحفظات کا جائزہ لیا جائے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جیل ٹرائل کا مطلب ہے کہ اوپن پبلک کورٹ پروسیڈنگ نہیں جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا جیل ٹرائل میں پبلک کی رسائی منع نہیں مگر محدود ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ جیل ٹرائل کے دوران تو صرف وہ لوگ ٹرائل پروسیڈنگ دیکھ سکیں گے جنہیں جیل حکام اجازت دیں۔

وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے سائفر کیس میں شاہ محمود قریشی کی ضمانت اور فرد جرم عائد کرنے کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024