سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کو باغ صفا پر جوڈیشل کمپلیکس کی تعمیر سے روک دیا
سپریم کورٹ نے ڈان اخبار میں شائع ہونے والی خبر کا نوٹس لیتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کو کلرکہار میں واقع باغِ صفا پر جوڈیشل کمپلیکس کی تعمیر سے روک دیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مغل دور کے قدیمی باغ پر لاہور ہائی کورٹ کے جوڈیشل کمپلیکس کی تعمیر کا نوٹس لے لیا۔
اس حوالے سے گزشتہ روز 6 نومبر کو رجسٹرار سپریم کورٹ نے رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ ڈان اخبار میں 5 نومبر کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق کلرکہار میں باغ صفا پر جوڈیشل کمپلیکس تعمیر کیا جا رہا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس معاملے کی چھان بین کا حکم دیا ہے۔
نوٹس میں کہا گیا کہ بتایا جائے کہ قدیم پارک کی اراضی کو جوڈیشل کمپلیکس میں کیوں تبدیل کیا جارہا ہے؟ کلر کہار میں لاہور ہائی کورٹ کو پہلے سے ٹرانسفر 80 کنال زمین کا کیا بنا؟
نوٹس کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس حوالے سے فوری معلومات کی فراہمی کا حکم دیا ہے، عدالت عظمٰی نے جوڈیشل کمپلیکس کی تعمیر اور منظوری کا مکمل ریکارڈ بھی طلب کرلیا اور ریکارڈ کی فراہمی تک منصوبے پر مزید کام روکنے کا حکم دے دیا۔
واضح رہے کہ کلرکہار میں واقع باغ صفا کی زمین 2 ریسٹ ہاؤسز کی تعمیر کی وجہ سے پہلے ہی سکڑ چکی ہے، اب اس کی اراضی کا 16.4 کنال پر پھیلا ایک اہم حصہ حکومت پنجاب نے جوڈیشل کمپلیکس کی تعمیر کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے حوالے کردیا ہے، متعدد درختوں کو اکھاڑ کر اس کی باؤنڈری وال کی تعمیر شروع کر دی گئی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈیڑھ کروڑ روپے کی لاگت سے دیوار کی تعمیر 12 ماہ میں مکمل ہوگی، اس سلسلے میں ایک ہدایت 24 اگست 2023 کو لاہور ہائی کورٹ کی اسسٹنٹ رجسٹرار (مینٹیننس) رابعہ رفیع نے جاری کی تھی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے پاس اسی مقصد کے لیے کلر کہار میں موٹر وے انٹرچینج کے قریب کلر کہار جھیل کے کنارے 80 کنال اراضی موجود ہے اور یہ زمین اس وقت سے لاوارث پڑی ہوئی ہے جب 2015 میں اس کا قبضہ لاہور ہائی کورٹ کو منتقل کیا گیا تھا۔
باغ صفا کے داخلی دروازے پر لگائی گئی تعارفی تختی کے مطابق باغ 111 کنال پر محیط ہے لیکن درحقیقت اب اس کا رقبہ صرف 68.3 کنال کا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کے رقبے کا ایک بڑا حصہ پہلے ہی تعمیراتی سرگرمیوں کی نذر ہوچکا ہے، اب اس کی 16.4 کنال اراضی کا قبضہ لاہور ہائی کورٹ کو دیے جانے کے بعد یہ باغ مزید سکڑ کر تقریباً 52 کنال رہ گیا ہے۔
رابطہ کرنے پر بلڈنگ ڈپارٹمنٹ کے ایگزیکٹیو انجینئر عبدالغفور نے بتایا کہ ان کے محکمے کو لاہور ہائی کورٹ نے باؤنڈری وال کی تعمیر کی ہدایت کی ہے، تاہم جوڈیشل کمپلیکس کی تعمیر کے لیے تاحال فنڈز جاری نہیں کیے گئے ہیں۔
چکوال کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر بلال بن عبدالحفیظ نے ضلعی انتظامیہ کا مؤقف پیش کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پہلے ہی عدلیہ کو ایک پیغام پہنچا چکے ہیں جس میں اس معاملے کو دیکھنے کی درخواست کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ ایک اعلیٰ فورم ہے، ہم اس مسئلے کو عدالت کے سامنے اٹھا رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اسے خوش اسلوبی سے حل کیا جائے گا۔
پشاور مرکزی عید گاہ پر سیکریٹریٹ تعمیر کرنے کا کیس
دریں اثنا سپریم کورٹ نے پشاور مرکزی عید گاہ پر سیکریٹریٹ تعمیر کرنے کے کیس میں محکمہ اوقاف اور صوبائی حکومت کو نوٹس جاری کردیا۔
جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ پندرھویں صدی کی مسجد اور عید گاہ ہے، صوبائی حکومت وہاں سیکریٹریٹ تعمیر کرنا چاہتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ مسجد نہیں عید گاہ کی زمین ہے، عید گاہ کی زمین تو اوپن ہوتی ہے، زمین کی ملکیت کس کی ہے؟
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ زمین مسلم کمیونٹی کی ملکیت ہے، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ مسلم کمیونٹی کسی این جی او کا نام ہے؟ زمین کسی کی ملکیت تو ہوگی، جو دستاویز آپ دکھا رہے ہیں اس کے مطابق یہ وقف کی زمین ہے۔
وکیل نے بتایا کہ پشاور مرکزی عید گاہ پر وزیر اعلیٰ سمیت نامور شخصیات عید نماز ادا کرتے ہیں۔
جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ سیکریٹریٹ تعمیر کا سائٹ پلان کدھر ہے؟ جسٹس عرفان سعادت نے استفسار کیا کہ اگر عیدگاہ مسجد کے ساتھ مولوی صاحب کا کوارٹر تعمیر ہو تو اس پر آپ کو اعتراض ہوگا، وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ مولوی صاحب کا کوارٹر پہلے سے تعمیر شدہ ہے۔
بعد ازاں جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے محکمہ اوقاف اور صوبائی حکومت کو نوٹس جاری کردیا۔