شہزاد اکبر کو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ساتھ معاہدے کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت
حکومت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے معاون برائے احتساب شہزاد اکبر سے اس معاہدے کے بارے میں دستاویزات طلب کی ہیں جن میں درج خفیہ تصفیے کے تحت برطانیہ سے تقریباً 14 کروڑ پاؤنڈز اور 4 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی منتقلی ہوئی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرکاری ذرائع نے بتایا کہ کابینہ ڈویژن نے سیکریٹری خارجہ سائرس سجاد قاضی کو ایک خط لکھا ہے جو کہ لندن میں پاکستانی ہائی کمشنر کے ذریعے شہزاد اکبر کو پہنچایا جائے گا۔
شہزاد اکبر سے کہا گیا ہے کہ وہ 5 دستاویزات فراہم کریں جن میں افراد یا اداروں اور غیر ملکی حکومت یا ایجنسی (برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی) کے درمیان معاہدے کی نقل بھی شامل ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ دستاویزات کابینہ ڈویژن یا کسی اور اتھارٹی کے پاس دستیاب کسی ریکارڈ کا حصہ نہیں ہیں۔
دستاویزات میں 6 نومبر 2019 کی رازداری کا تصفیہ بھی شامل ہے، جس پر شہزاد اکبر نے اس وقت کے معاون خصوصی کے طور پر حکومت کی جانب سے اور برطانیہ کی عدالت کے حکم پر دستخط کیے تھے جس کے تحت رقم ضبط کی گئی تھی۔
حکومت نے یہ بھی وضاحت طلب کی ہے کہ ضبط شدہ رقم کو سپریم کورٹ کی جانب سے بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ کراچی پر عائد جرمانے کے لیے کیسے ایڈجسٹ کیا گیا۔
علاوہ ازیں نیشنل بینک آف پاکستان نے ملک ریاض کی بہو مبشرہ علی ملک سے تصفیے کے معاہدے کی کاپیاں فراہم کرنے کو کہا ہے جس کے تحت انہوں نے مبینہ طور پر لندن میں اپنے بینک اکاؤنٹ سے نومبر 2019 میں 3 کروڑ 29 لاکھ پاؤنڈ پاکستان بھجوائے تھے۔
اسی طرح فارچون ایونٹ لمیٹڈ کی جانب سے اسی مہینے میں 7 لاکھ 7 ہزار 522 پاؤنڈز اور ملک ریاض کی بیوی بینا ریاض اور بیٹی ثنا سلمان کی جانب سے ساڑھے 13 لاکھ پاؤنڈز پاکستان بھیجے گئے۔
دسمبر 2019 میں پریمیئر انویسٹمنٹ گلوبل لمیٹڈ کی جانب سے اضافی 43 لاکھ پاؤنڈز اور 44 لاکھ ڈالر، مشرق بینک کی طرف سے ایک کروڑ 99 لاکھ پاؤنڈز اور واڈلیک بیل ایل ایل پی کی طرف سے مئی 2022 میں 3 کروڑ 44 لاکھ پاؤنڈز بھیجے گئے۔
کابینہ ڈویژن کے پاس دستیاب ’جزوی ریکارڈ‘ سے پتا چلتا ہے کہ این سی اے اور مختلف اداروں/افراد کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا اور شہزاد اکبر نے بظاہر ان معاہدوں کے بارے میں رازداری کے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
ان اداروں یا افراد میں فارچیون ایونٹ لمیٹڈ، ایمریٹس ہل دبئی (یو اے ای)، مبشرہ علی ملک ایمریٹس ہل دبئی، بینا ریاض اور ثنا سلمان ایمریٹس ہل دبئی، احمد علی ریاض ایمریٹس ہل دبئی، مشرق بینک وال بلڈنگ لندن (برطانیہ)، الٹیمیٹ ہولڈنگز ایم جی ٹی لمیٹڈ برٹش ورجن آئی لینڈ، پریمیئر انویسٹمنٹس گلوبل لمیٹڈ دبئی اور ویڈلیک بیل ایل ایل پی لندن (برطانیہ) شامل ہیں۔
یہ رقم ان اداروں اور افراد کے ذریعے پاکستان بھیجی گئی جو بالآخر سپریم کورٹ کے اکاؤنٹس میں جاپہنچی۔
گزشتہ ماہ سپریم کورٹ نے مارچ 2019 کے اپنے حکم پر عمل درآمد سے متعلق اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے ان 10 کمپنیوں اور افراد کو نوٹس جاری کیے تھے جس میں عدالت نے ملک ریاض کی جانب سے ان کی رئیل اسٹیٹ فرم بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ کی طرف سے 460 ارب روپے کی ادائیگی کی پیشکش کو قبول کر لیا تھا کیونکہ اس کے حوالے سے کراچی کے ضلع ملیر میں ہزاروں ایکڑ اراضی غیر قانونی طور پر حاصل کرنے کا انکشاف سامنے آیا تھا۔
عدالت نے حکم دیا کہ ان 10 کمپنیوں اور افراد کو نوٹسز رجسٹرڈ ڈاک کے ذریعے اور پاکستانی سفارتخانے/ہائی کمیشن یا پاکستان قونصلیٹ کے ذریعے بھیجے جائیں، کیس کی دوبارہ سماعت 8 نومبر کو ہوگی۔
حکومتِ سندھ کی درخواست
دریں اثنا حکومت سندھ نے بھی اس جمع کرائی گئی رقم پر دعویٰ کرنے کے لیے گزشتہ روز سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔
اپنی درخواست میں حکومت سندھ نے کہا کہ بحریہ ٹاؤں کراچی کی جانب سے جمع کرائی گئی رقم مارک اپ کے ساتھ حکومت سندھ کے اکاؤنٹ نمبر ایک میں جمع کرائی جائے، کوئی دوسرا ادارہ اس رقم کا حقدار نہیں ہے۔
درخواست میں اس بات پر زور دیا گیا کہ صوبائی حکومت کو عوامی اور ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کے لیے فنڈز کی اشد ضرورت ہے اور اس نے عدالت عظمیٰ سے متعدد بار فنڈز جاری کرنے کی استدعا کی ہے۔
حکومتِ سندھ کے مطابق مذکورہ درخواست نگران وزیراعلیٰ مقبول باقر کی منظوری کے بعد دائر کی گئی۔