• KHI: Fajr 5:31am Sunrise 6:51am
  • LHR: Fajr 5:09am Sunrise 6:33am
  • ISB: Fajr 5:16am Sunrise 6:43am
  • KHI: Fajr 5:31am Sunrise 6:51am
  • LHR: Fajr 5:09am Sunrise 6:33am
  • ISB: Fajr 5:16am Sunrise 6:43am

پاکستان، چینی فنانسنگ کا تیسرا سب سے بڑا وصول کنندہ ہے، رپورٹ

شائع November 7, 2023
28.13 ارب ڈالرز کے ساتھ پاکستان کو چین کی جانب سے دیے جانے والے امدادی قرضے دنیا میں سب سے زیادہ ہیں — فاٗل فوٹو: سی پیک ویب سائٹ
28.13 ارب ڈالرز کے ساتھ پاکستان کو چین کی جانب سے دیے جانے والے امدادی قرضے دنیا میں سب سے زیادہ ہیں — فاٗل فوٹو: سی پیک ویب سائٹ

امریکا میں قائم انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ ریسرچ لیب ’ایڈ ڈیٹا‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان 70.3 ارب ڈالرز کے ساتھ چینی فنانسنگ کا تیسرا سب سے بڑا وصول کنندہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایڈ ڈیٹا کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین کا پاکستان میں 2000 سے 2021 تک پورٹ فولیو صرف 2 فیصد گرانٹس پر مشتمل ہے، جبکہ باقی فنانسنگ قرضے کی صورت میں ہے، ایڈ ڈیٹا نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے یہ نتائج 5 ہزار 300 سے زائد ذرائع سے ڈیٹا کا استعمال کر کے اخذ کیے ہیں۔

امریکی ریسرچ ہاؤس کے مطابق قرضوں پر اوسط سود کی شرح 3.72 فیصد، اوسط میچورٹی کی مدت 9.84 سال اور رعایتی مدت 3.74 سال تھی۔

ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں 2000 سے 2021 کے دوران سب سے زیادہ ترقیاتی فنانسنگ توانائی کے شعبے نے حاصل کی، جس کا حصہ 40 فیصد یا 28.4 ارب ڈالر رہا، جبکہ بجٹ سپورٹ (30 فیصد یا 21.3 ارب ڈالر)، مواصلات اور اسٹوریج (14 فیصد یا 9.7 ارب ڈالر) کے ساتھ چینی فنانسنگ کے دوسرے بڑے اہم شعبے رہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ توانائی کا 28.4 ارب ڈالر کا پورٹ فولیو دنیا میں سب سے بڑا ہے، اس کے بعد اسی مدت میں انگولا (24.7 ارب ڈالر) اور ویتنام (21.7 ارب ڈالر) میں دوسری اور تیسری بڑی چینی ترقیاتی فنانسنگ کی گئی، پاکستان کا توانائی کا پورٹ فولیو درجنوں ممالک میں چین کے عالمی توانائی کے پورٹ فولیو کی 10.2 فیصد نمائندگی کرتا ہے۔

2000 سے 2021 تک انتظامی لحاظ سے چینی ترقیاتی فنانسنگ کو دیکھا جائے تو 21 سالہ مدت کے دوران مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے (2017-2013) سب سے زیادہ 36.2 ارب ڈالرز کو راغب کیا، تحریک انصاف نے 19.6 ارب ڈالرز، پیپلز پارٹی 10.4 ارب ڈالرز اور مشرف کی حکومت کے دوران 4.1 ارب ڈالرز آئے۔

اعداد و شمار کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں سب سے زیادہ توانائی کے شعبے میں فنانسنگ (52.8 فیصد) ہوئی، جبکہ ’بجٹ سپورٹ‘ کی مد میں پی ٹی آئی کی حکومت نے سب سے زیادہ حصہ (61.3 فیصد) حاصل کیا۔

2012 سے چین پاکستان کا واحد سب سے بڑا غیر ملکی ترقیاتی فناسنگ فراہم کنندہ رہا ہے، جس نے 2013 میں امریکا کے مقابلے میں 1.6 گنا، 2016 میں 7.7 گنا اور 2021 میں 22.4 گنا زیادہ فنانسنگ کی۔

ڈیٹا سے پتا چلتا ہے کہ 2021 تک 82 فیصد منصوبے مکمل ہوگئے اور مزید 13 فیصد پر ’عمل درآمد‘ جاری ہے۔

50 کروڑ ڈالر سے زیادہ مالیت کے 47 منصوبوں میں سے اکثریت عام بجٹ سپورٹ (21) کی تھی، اس کے بعد توانائی (15) اور بینکنگ اور مالیاتی خدمات (6) کی تھی، ایک ارب ڈالر سے زیادہ کے 17 منصوبوں میں سے 6 بجٹ سپورٹ اور 5 توانائی کے شعبے کے رہے۔

ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ فنانسنگ کے سالانہ عزم کی شرح مشرف دور میں 50 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز سے بڑھ کر پی پی پی کی حکومت میں 2.1 ارب ڈالرز تک پہنچ گئی، نواز شریف/شاہد خاقان عباسی کے دورِ حکومت میں یہ 7.2 ارب ڈالرز سالانہ تھی، پی ٹی آئی حکومت کے سالوں میں اوسطاً سالانہ وعدے 4.9 ارب ڈالرز کے تھے لیکن یہ عام بجٹ سپورٹ قرضے کے ذریعے کارفرما تھے۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 68.9 ارب ڈالرز کے کُل 161 قرضوں کے ساتھ پاکستان کا پورٹ فولیو روس اور وینزویلا کے بعد دنیا میں چین کے تیسرے سب سے بڑے ملکی سطح کے قرضوں کے پورٹ فولیو پر مبنی ہے۔

28.13 ارب ڈالرز کے ساتھ پاکستان کو چین کی جانب سے دیے جانے والے امدادی قرضے دنیا میں سب سے زیادہ ہیں، اس کے بعد ارجنٹائن، ایکواڈور اور وینزویلا کا نمبر آتا ہے، رپورٹ کے مطابق یہ ’بالخصوص دونوں ممالک کے درمیان ہر موسم کی قریبی دوستی‘ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

چین پر پاکستان کا عوامی قرضہ 67.2 ارب ڈالرز کا ہے جو جی ڈی پی کا 19.6 فیصد ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2017 کے بعد سے چینی ترقیاتی فنانسنگ کا بڑا حصہ ترقیاتی منصوبوں کے بجائے بچاؤ کے قرضوں کے لیے ہے، جو سی پیک کے عروج کے دنوں میں نمایاں تھا۔

2017 کے بعد کے سالوں میں یہ بھی دیکھا گیا کہ قرضوں میں توسیع زیادہ عام ہو گئی اور 2019 سے قرض کے نئے وعدوں سے مماثل یا اس سے تجاوز کر گئے ہیں۔

اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ 38.8 ارب ڈالرز کے 127 انفرااسٹرکچر کے منصوبوں میں سے 45 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز کے صرف تین منصوبے اب تک معطل یا منسوخ کیے گئے۔

ایڈ ڈیٹا کے اندازے کے مطابق نصف سے زیادہ (52 فیصد) انفرااسٹرکچر منصوبے کے پورٹ فولیو نے ماحولیاتی، سماجی یا گورننس ( ای ایس جی) کے خطرے کا سامنا کیا، اس کا دعویٰ ہے کہ توانائی کے شعبے نے سب سے زیادہ ماحولیاتی، سماجی یا گورننس کے خطرات کا سامنا کیا جس کے 51 فیصد پورٹ فولیو کو ان میں سے ایک یا زیادہ چیلنجز کا سامنا تھا۔

ایڈ ڈیٹا کی درجہ بندی کے مطابق ان منصوبوں میں سے صرف ایک چوتھائی میں ماحولیاتی، سماجی اور گورننس کے مضبوط حفاظتی اقدامات کیے گئے، رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ماحولیاتی اور گورننس کے خطرات کے لیے بالترتیب 16 فیصد اور 19 فیصد کے برعکس ان منصوبوں میں سے 46 فیصد کو سماجی خطرات جیسے کہ لیبر کی خلاف ورزیوں یا کمیونٹی کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔

کارٹون

کارٹون : 18 نومبر 2024
کارٹون : 17 نومبر 2024