• KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:26pm

وزیر اعظم کا دفتر خفیہ ایجنسیوں کے کام میں مداخلت نہیں کرتا، حکومت

شائع November 7, 2023
رپورٹ میں ان  قوانین پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جو ایجنسیوں کو شہریوں کی نگرانی کے لیے بااختیار بناتے ہیں—فائل فوٹو: اےا یف پی
رپورٹ میں ان قوانین پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جو ایجنسیوں کو شہریوں کی نگرانی کے لیے بااختیار بناتے ہیں—فائل فوٹو: اےا یف پی

آڈیو لیک کیس کی سماعت کے دوران اٹھائے گئے متعدد سوالات کے جواب میں حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ وزیر اعظم کا دفتر انٹیلی جنس ایجنسیوں کے دائرہ کار میں مداخلت نہیں کرتا، ایک حد تک فاصلہ برقرار رکھتا ہے اور ان سے توقع کرتا ہے کہ وہ ملکی آئین و قانون کے تحت عوامی مفاد میں کام کریں گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر وزیر اعظم کا دفتر پریمیئر انٹیلی جنس ایجنسیوں کے آپریشنل اور ان کے کام کی تفصیلات میں جاتا ہے تو یہ قومی سلامتی کے مفاد کے خلاف ہوگا۔

اس جمع کرائی گئی رپورٹ میں ان قوانین پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جو ایجنسیوں کو شہریوں کی نگرانی کے لیے بااختیار بناتے ہیں۔

یہ رپورٹ گزشتہ ہفتے جسٹس بابر ستار کی جانب سے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نگرانی کے حوالے سے اٹھائے گئے سوالات کے جواب میں دائر کی گئی ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان کی شریک حیات بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس بابر ستار نے گزشتہ ہفتے وفاقی حکام پر تنقید کی تھی اور اٹارنی جنرل پاکستان کو ہدایت کی تھی وہ نگرانی کا قانونی طریقہ وضع کرنے کے لیے آڈیو لیکس کے معاملے کو کابینہ کے سامنے اٹھائیں۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ الیکٹرانک نگرانی کیسے کی جا رہی ہے اور کون کر رہا ہے؟ فون کالز ریکارڈ کرنے کا فیصلہ کرنے کی مجاز اتھارٹی کون ہے؟ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کا کہنا ہے کہ انہوں نے کسی کو کسی کی بات چیت سننے کی اجازت نہیں دی۔

انہوں نے نوٹ کیا کہ وزیر اعظم آفس، سپریم کورٹ کے جج اور سابق چیف جسٹس کے خاندان کی آڈیو لیک ہوئی، ریاست پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر ایسا کرنا خوفناک عمل ہے۔

گزشتہ سماعت پر عدالت عالیہ نے مدعا علیہ حکام سے کہا کہ ان اداروں اور ایجنسیوں کی نشاندہی کریں جن کے پاس ٹیلی فون کالز ریکارڈ کرنے اور ٹیلی کمیونیکیشن نگرانی کے لیے ضروری تکنیکی صلاحیت موجود ہے۔

عدالت نے تحقیقات کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیلات بھی طلب کیں کہ شہریوں کی گفتگو ریکارڈنگ کس نے کی، کو کر رہا ہے اور اس طرح کی گفتگو عوامی سطح پر کیسے جاری کی جا رہی ہے جب کہ اس طرح کی لیکس وفاقی حکومت کے علم میں ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 18 نومبر 2024
کارٹون : 17 نومبر 2024