پرویز مشرف کی سزائے موت کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست سماعت کیلئے مقرر
سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کی جانب سے 17 دسمبر 2019 کو غداری کے مقدمے میں سنائی گئی سزائے موت کو کالعدم قرار دینے کے لیے دائر اپیلوں پر سپریم کورٹ میں 10 نومبر سے سماعت کا آغاز ہوگا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سماعت کے لیے 4 رکنی بینچ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل ہوگا۔
مرحوم پرویز مشروف نے اپنے وکیل سلمان صفدر کے توسط سے دائر اپیل میں استدعا کی تھی کہ سزا کو کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ ان کے خلاف مقدمہ مکمل طور پر آئین اور ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی) 1898 کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہوئے بنایا گیا، اس سزا کو معطل کیا جانا انصاف اور منصفانہ عمل کے مفاد میں ہے۔
اپیل میں کہا گیا کہ سابق صدر کے خلاف مکمل طور پر غیر آئینی طریقے سے آئین کے خلاف جرم کے ارتکاب کا مقدمہ چلایا گیا۔
دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے 13 جنوری 2020 کو لاہور ہائی کورٹ کے خصوصی عدالت کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دینے کے فیصلے کو بھی چیلنج کیا ہے اور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔
درخواست میں سپریم کورٹ سے خصوصی عدالت کی جانب سے آئین کو پامال کرنے کی سزا کو بحال کرنے کی بھی استدعا کی گئی۔
وکیل رشید اے رضوی کی جانب سے دائر کی گئی اپیل میں استدعا کی گئی کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ سنگین غیر قانونی، حقائق کے منافی، قانون کی غلط تشریح پر مبنی ہے، اس لیے عدالت عظمیٰ کی جانب سے اسے کالعدم قرار دیا جانا چاہیے۔
درخواست میں استدلال کیا گیا کہ ہائی کورٹ نے اس بات کا نوٹس نہیں لیا کہ استغاثہ کی جانب سے خصوصی عدالت کے سامنے پیش کیے گئے مواد سے جنرل (ر) پرویز مشرف نے کیس کے کسی بھی مرحلے پر انکار نہیں کیا۔
اپیل میں کہا گیا کہ قانون شہادت آرڈر کا یہ طے شدہ اصول ہے کہ جب انکار نہ کیا جائے تو فریقین کی جانب سے تسلیم کیے گئے حقائق اور تسلیم شدہ حقائق اور حالات کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ اعلیٰ عدالتوں کے وضع کردہ قانون کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کی جانب سے ’لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کیس 2019‘ کے فیصلے کے بھی خلاف ہے۔