سی ڈی ڈبلیو پی نے سرمایہ کاری کے حصول کیلئے 9 منصوبوں کی منظوری دے دی
سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی(سی ڈی ڈبلیو پی) نے مختلف شعبوں میں 224 ارب کے 9 منصوبوں کی منظوری دے دی، جن کا بنیادی مقصد کثیر الاجہتی اور دو طرفہ قرض دہندگان کی جانب سے بین الاقوامی مالی امداد لانا ہے، جو ایک سال پہلے جنیوا کانفرنس میں کیے گئے معاہدوں کے باوجود منصوبوں کی تیاریوں میں سستی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹر جہانزیب خان کی زیر صدارت سی ڈی ڈبلیو پی کے اجلاس میں 10 ارب روپے کے پانچ چھوٹے منصوبوں کی منظوری دی، اور 213 ارب 86 کروڑ روپے کے چار بڑے منصوبوں کو منظوری کے لیے قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی (ایکنک) ارسال کردیا۔
حالیہ مالی ضوابط میں سی ڈی ڈبلیو پی براہ راست 10 ارب کے منصوبوں کی منظوری دے سکتا ہے، جبکہ ایکنک ان منصوبوں کی منظوری کا ذمہ دار ہے، جو سی ڈی ڈبلیو پی کے تکنیکی جائزے پر مبنی ہوں۔
جمعہ کو سی ڈی ڈبلیو پی کے زیر غور آنے والے منصوبوں کا تعلق مختلف شعبوں سے ہے، جس میں خوراک، زراعت، تعلیم، توانائی، فزیکل پلاننگ اور ہاؤسنگ، سائنس اور ٹیکنالوجی، سماجی بہبود، ٹرانسپورٹ اور مواصلات، اور آبی وسائل شامل ہیں۔
سی ڈی ڈبلیو پی نے خوراک اور زراعت کے شعبے سے ایک منصوبے جس کا نام ’خیبر پختونخوا فوڈ سیکیورٹی سپورٹ‘ منصوبہ ہے، کو تکنیکی بنیاد پر کلیئر کر دیا اور 26.64 ارب (8 کروڑ 80 لاکھ ڈالر) کی موجوزہ لاگت پر منظوری کے لیے ایکنک کے پاس بھیج دیا۔
اس منصوبے کو مکمل طور پر ایشیائی ترقیاتی بینک (8 کروڑ 30 لاکھ ڈالر) اور جاپان (50 لاکھ ڈالر ) کی فنڈنگ کرے گا اور صوبائی حکومت کا اس میں کوئی حصہ نہیں لگے گا۔
اس کی فنانسنگ کا عہد منیلا میں قائم ایشیائی ترقیاتی بینک نے گزشتہ سال جنیوا میں سیلاب متاثرین کے لیے بین الاقوامی امداد کے طور پر کیا تھا۔
اس منصوبے کا مقصد 2022 میں سیلاب سے متاثر کسانوں کی مدد کرنا تھا، اس کا طویل مدتی مقصد زراعت کی پیداوار کو اہم زرعی سامان اور ان کے محفوظ اور مؤثر استعمال کی ٹریننگ دے کر بڑھانا تھا۔
اس سے کچن گارڈننگ، فوڈ پروسیسنگ، بیجوں کی صفائی اور اسٹوریج ٹول کٹس کی فراہمی اور گھریلو خواتین کی تربیت کے ذریعے غذائیت اور خوراک کی حفاظت کو بہتر بنانے کے علاوہ ادارے کی صلاحیت اور موسمیاتی آفات سے نمٹنے کے لیے تیاریاں بڑھانے کی بھی توقع ہے۔
سی ڈی ڈبلیو پی نے ’سندھ اسکول بحالی‘ منصوبہ بھی ایکنک بھیج دیا ،83.19 ارب (30 کروڑ ڈالر) کا منصوبہ بھی جنیوا میں کیے جانے والے اے ڈی بی کے وعدے میں شامل ہے، جو 27 کروڑ ڈالر قرض کے ذریعے اس منصوبے کے 90 فیصد اخراجات (75.6 ارب روپے) برداشت کرے گا۔
10 فیصد بقایا اخراجات جس کی لاگت تقریبا 7.56 ارب ہے، سندھ حکومت برداشت کرے گی، یہ منصوبہ صوبے کے 17 اضلاع کا احاطہ کرے گا، مکمل اور جزوی طور پر تباہ شدہ اسکولوں کی تعمیر میں مدد کرے گا اور نئے بلاکس بنا کر 62 پرائمری اسکولوں کو سیکنڈری، مڈل اور ہائیر سیکنڈری سطح پر اپ گریڈ کرے گا۔
اجلاس میں ایشیائی ترقیاتی بینک کے فنڈ سے چلنے والے ایک اور منصوبے کا بھی جائزہ لیا گیا، جس میں وفاقی حکومت کو 10 کروڑ ڈالر سے زائد قرضہ دیا جائے گا اور اس کی منظوری ایکنک سے لی جائے گی۔
اس منصوبے کا عنوان ’ویمن انکلوسیو فنانس ڈیولپمنٹ پروگرام‘ ہے اور اس پر 31.41 ارب روپے لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے، اس کا مقصد ملک بھر کی کاروباری خواتین کی مدد کرنا ہے۔
وزارت خزانہ کو اس فنڈنگ کے لیے ایک ایگزیکیوٹنگ ایجنسی کے طور پر نامزد کیا گیا ہے، جو غیر ملکی ذرائع خاص طور پر اے ڈی بی سے آئے گی۔
عمل درآمد ادارے کے طور پر اسٹیٹ بینک ایک پروجیکٹ پر عمل درآمد یونٹ قائم کرے گا، جس کے اخراجات مرکزی بینک کے اپنے فنڈز سے پورے کیے جائیں گے، فنانسنگ کی نگرانی ایک اسٹیئرنگ کمیٹی کرے گی، جس کی قیادت اسٹیٹ بینک پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کریں گے اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز بھی اس کے رکن ہوں گے۔
سی ڈی ڈبلیو پی نے سندھ کے لیے ایک اور میگا واٹر سیکٹر پروجیکٹ کو بھی کلیئر کر دیا اور ایگزیکٹو بورڈ کی طرف سے قرض کی منظوری کے بعد اے ڈی بی کی فنڈنگ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایکنک سے اس کی جلد منظوری کی درخواست کی، 74.62 ارب روپے سے سندھ کے بیراجوں کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
ان اہم منصوبوں کو ایکنک بھیجنے کے علاوہ سی ڈی ڈبلیو پی نے پانچ ترقیاتی منصوبوں کی بھی منظوری دی۔
اس نے سیلاب سے متاثر بلوچستان کے اسکولوں کی دوبارہ بحالی کے منصوبے کو بھی منظور کیا جس کی لاگت 1.4 ارب ہے۔
یہ منصوبہ لسبیلہ، ڈیرہ بگٹی، کوئٹہ، سبی، نصیر آباد، چمن، قلات، خضدار، صحبت پور، کچھی، قلعہ عبداللہ، جعفرآباد، قلعہ سیف اللہ، پنجگور، مستونگ، موسیٰ خیل اور جھل مگسی سمیت کئی اضلاع کا احاطہ کرے گا۔
فیڈرل پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے ذریعے فنڈ فراہم کیے جانے والے اس منصوبے کا مقصد سیلاب سے شدید متاثر ہونے والے اسکولوں کی بحالی ہے۔
سی ڈی ڈبلیو پی نے 3.1 ارب روپے کے ایک منصوبے کے پہلے مرحلے کی بھی منظوری دی، جس کا نام ’جموں و کشمیر پر غیر قانونی بھارتی قبضہ (آئی آئی جے او کے) کے پناہ گزین کی 1989 کے بعد سے مستقل آباد کاری‘ ہے۔
اس اجلاس میں بتایا گیا کہ 8600 خاندان بھارتی مقبوضہ کشمیر سے بے گھر ہوگئے ہیں، جو 1989 سے آزاد کشمیر میں قیام پذیر ہیں اور ان میں سے بیشتر کے حالات انتہائی خراب ہیں اور ان کو مرحلہ وار 5 مرلے کے گھروں میں منتقل کرنا ہوگا، پہلے مرحلے میں تقریبا 750 گھر آزاد کشمیر کے اضلاع باغ، ہٹیاں بالا، کوٹلی اور مظفرگڑھ میں بنائے جائیں گے۔
مظفرآباد اور نیلم کے اضلاع میں 52 کلومیٹر پر محیط نوسیری لیسوا بائی پاس روڈ کو بہتر بنانے کے لیے 1.622 ارب روپے کی لاگت کے ایک اور منصوبے کی بھی منظوری دی گئی۔
اسی طرح ناگور شریف سے سنتسر تک 54 کلومیٹر سڑک کی تعمیر کے نظرثانی شدہ منصوبے کی بھی منظوری دی گئی جس کی کل لاگت 2.4 ارب روپے ہے، سی ڈی ڈبلیو پی نے پی وی ماڈیولز اور متعلقہ آلات کے لیے پاک-کوریا ٹیسٹنگ لیبارٹری کے قیام کے لیے ایک اور منصوبے کی بھی منظوری دی جس کی تخمینہ لاگت 1.505 ارب روپے ہے۔