پوسٹ پارٹم ڈپریشن میں شوہر سے طلاق لینے کا سوچ لیا تھا، ثنا عسکری
پاکستانی ماڈل اور اداکارہ ثنا عسکری کا کہنا ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد انہیں نہیں معلوم تھا کہ وہ پوسٹ پارٹم ڈپریشن میں مبتلا ہیں، ان کے اندر نفرت اور غصہ اتنا بڑھ گیا تھا کہ انہوں نے اپنے شوہر سے طلاق لینے کا سوچ لیا تھا۔
پاکستانی ماڈل اور اداکارہ ثنا عسکری نے سما ٹی وی کے مارننگ شو میں شرکت کی جہاں انہوں نے پوسٹ پارٹم ڈپریشن پر تفصیلی گفتگو کی۔
ثنا عسکری کی شادی یوٹیوبر منہاج علی عسکری سے ہوئی تھی اور 2016 میں ان کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی تھی۔
اداکارہ نے مارننگ شو میں پوسٹ پارٹم ڈپریشن سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب وہ حاملہ ہوئیں تو بُری نظر سے بچنے کے لیے انہوں نے 5 ماہ تک کسی کو نہیں بتایا کہ وہ حاملہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’لوگوں کو بُری نظر کی وجہ سے میں نے اپنے شوہر، والدہ اور ساس کے علاوہ فیملی میں کسی کو نہیں بتایا کہ میں حاملہ ہوں کیونکہ اس سے پہلے میرے 2 بچے ضائع ہوگئے تھے۔‘
ثنا عسکری نے بتایا کہ پہلے بچے کی پیدائش کے بعد انہیں کافی مسائل کا سامناکرنا پڑا، ’ہمارے ہسپتالوں میں محدود وسائل کی وجہ سے نئی ماؤں کو یہ نہیں سکھایا جاتا کہ نومولود بچے کو دودھ کیسے پلانا ہے؟ میرے ذہن میں بہت سارے منفی خیالات تھے کہ بچے کی پرورش کس طرح کرنی ہے۔
ثنا عسکری نے بتایا کہ ’میں اس وقت ڈپریشن سے گزر رہی تھی لیکن مجھے پوسٹ پارٹم ڈپریشن کے لفظ کے بارے میں نہیں معلوم تھا، میں بغیر کسی وجہ کے روتی رہتی تھی، مجھے خود سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہورہا ہے۔
اداکارہ نے بتایا کہ جب میرا بیٹا تین ماہ کا تھا تو اس کے علاج کے لیے اپنی والدہ کے ساتھ ہسپتال گئی، اس وقت والدہ کا بھی الٹراساؤنڈ ہوا تو مجھے معلوم ہوا کہ والدہ کو اسٹیج فور بریسٹ کینسر ہے۔
انہوں نے بتایا کہ والدہ کے علاج کے لیے تین ماہ کے بیٹے کے ساتھ امی کے گھر چلی گئی، والدہ کی کیموتھراپی جاری تھی تو اس دوران ان کے بال بھی جھڑنا شروع ہوگئے، تب مجھے احساس ہوا کہ میری والدہ کی زندگی کو خطرہ ہے۔
ثنا عسکری نے آبدیدہ ہوتے ہوئے بتایا کہ ’ارد گرد اتنی زیادہ مشکلات تھیں کہ مجھے احساس ہوا کہ میں اپنے شوہر سے بھی نفرت کرنا شروع ہوگئی ہوں، میرے شوہر نے ڈپریشن کے دوران میرا بہت ساتھ دیا، وہ میری ساری باتیں خاموشی سے سنتے تھے لیکن چونکہ میں ڈپریشن سے گزر رہی تھی تو مجھے احساس نہیں ہوا کہ میرے اندر نفرت آگئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ والدہ کی بیماری اور تین ماہ کے بیٹے کی پرورش کی ٹینشن کو دیکھتے ہوئے میں گھر سے باہر نہیں نکلتی تھی، میں نے کسی سے مدد نہیں لی، اس وقت مجھے خیال آیا کہ مجھے اپنے شوہر سے طلاق لے لینی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ میرے اندر غصہ اور نفرت اتنی بڑھ چکی تھی کہ میں اپنا غصہ بچے اور ماں پر نہیں نکال سکتی تھی اس لیے شوہر میرے لیے آسان ہدف تھا اور ان سے راستے جدا کرنے کا سوچ لیا تھا، اس وقت مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں پوسٹ مارٹم ڈپریشن سے گزر رہی ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ جب میں نے غصہ اپنے بچے پر نکالنا شروع کیا تو مجھے احساس ہوا کہ مجھے کسی سے مدد لینی چاہیے، میں اپنی دوست کے مشورے پر سائیکالوجسٹ کے پاس گئیں اور ان سے اپنا علاج کروانا شروع کیا۔
پوسٹ پارٹم ڈپریشن کیا ہے؟
بچے کی پیدائش کے بعد ڈپریشن کے لیے پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی اصطلاح کا استعمال کیا جاتا ہے جو ایک عام عارضہ ہے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے مطابق 5 ہزار خواتین پر کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ تقریباً 4 میں سے ایک خاتون بچے کی پیدائش کے بعد پوسٹ پارٹم ڈپریشن میں مبتلا رہتی ہیں۔
ڈپریشن کے دوران ماں کے ذہن میں منفی خیالات، اپنے آپ کو یا اپنے بچے کو نقصان پہنچانے کے خیالات آتے ہیں، اس مرض کا دوسرا سب سے بڑا اثر مریض پر غنودگی طاری ہونا اور منہ خشک ہوجانا ہے۔
اس مرض سے نکلنے کے لیے مریض سائکالوجسٹ سے رجوع کرتے ہیں۔