اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے سے ہفتہ وار مہنگائی 30 فیصد تک جاپہنچی
قلیل مدتی مہنگائی سالانہ بنیادوں پر 2 نومبر کو ختم ہونے کے ہفتے کے دوران بڑھ کر 29.88 فیصد تک جا پہنچی، جس کی بنیادی وجہ اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ میں سرکاری اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا گیا کہ حساس قیمت انڈیکس (ایس پی آئی) سے پیمائش کردہ مہنگائی ہفتہ وار بنیادوں پر 0.71 فیصد بڑھی، ایس پی آئی 5 ہفتے مسلسل اضافے کے بعد گزشتہ ہفتے کم ہوا تھا۔
نگران حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل نہیں کیا، جس کے سبب صارفین کی امیدوں کو دھچکا لگا، جو نمایاں کمی کی توقع کررہے تھے، اوگر نے نمایاں کمی کی سفارش کی تھی لیکن نگران حکومت نے قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔
ایس پی آئی میں 51 اشیا کی قیمتوں کا جائزہ لیا جاتا ہے، زیر جائزہ ہفتے کے دوران 12 مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں، 14 میں کمی جبکہ 25 اشیا کی قیمتیں مستحکم رہیں۔
زیر جائزہ مدت کے دوران سالانہ بنیادوں پر جن اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، ان میں گیس چارجز (108.38 فیصد)، سگریٹ (94.46 فیصد)، پسی مرچ (84.11 فیصد)، باسمتی چاول ٹوٹا (78.08 فیصد)، گندم کا آٹا (76.51 فیصد)، چینی (62.60 فیصد)، چاول ایری 6/9 (62.27 فیصد)، مردانہ چپل (58.05 فیصد)، لپٹن چائے (55.79 فیصد)، لہسن (54.51 فیصد) اور گڑ (53.53 فیصد)۔
ہفتہ وار بنیادوں پر ان اشیا کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا، ٹماٹر (25.58 فیصد)، پیاز (25.25 فیصد)، مرغی کا گوشت (10.97 فیصد)، آلو (1.61 فیصد)، لپٹن چائے (1.58 فیصد)، انڈے (1.30 فیصد)، لہسن (0.50 فیصد)، باسمتی چاول ٹوٹا (0.19 فیصد) اور آگ جلانے والی لکڑی (0.05 فیصد)۔
رواں برس مئی میں ایس پی آئی 4 مئی کو 48.35 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد 3 ہفتوں تک 45 فیصد سے اوپر رہا۔
مہنگائی کے رجحان کی بڑی وجہ روپے کی قدر میں کمی، پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، سیلز ٹیکس اور بجلی کے بل ہیں۔
آئی ایم ایف کی تازہ ترین پیش گوئی کے مطابق اوسط کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) پچھلے سال کے 29.6 فیصد کے برعکس رواں مالی سال 25.9 فیصد رہنے کا امکان ہے۔
دریں اثنا، ہفتہ وار بنیادوں پر ان اشیا کی قیمتوں میں کمی ریکارڈ کی گئی، کیلے (1.78 فیصد)، خوردنی تیل 5 لیٹر (1.62 فیصد)، ویجیٹیبل گھی ایک کلو (1.23 فیصد)، ایل پی جی سلنڈر (1.05 فیصد)، دال مسور (0.93 فیصد)، گندم کا آٹا (0.62 فیصد)، صابن (0.41 فیصد) اور سرسوں کا تیل (0.32 فیصد)۔