نظریہ ضرورت کے تحت سربراہ پی سی بی کا معاملہ ورلڈ کپ کے بعد دیکھیں گے، نگران وزیراعظم
نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی انتظامی میٹی کے چیئرمین ذکا اشرف کی مدت ملازمت کے حوالے سے ابھی کوئی بڑا فیصلہ نہیں کریں گے کیونکہ بعض اوقات آپ کو نظریہ ضرورت کے تحت کام لینا پڑتا ہے، ابھی ورلڈ کپ چل رہا ہے تو اس کے بعد پھر دیکھیں گے۔
ڈان نیوز کے پروگرام ’اِن فوکس‘ میں میزبان نادیہ نقی کو انٹرویو دیتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ میرے خیال میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان ایک معاہدے کے تحت ہوا ہے اور اس معاہدے میں بھی یہی اتفاق ہوا ہے کہ اس تاریخ کو الیکشن کمیشن نے ہی حتمی شکل دی ہے، فریقین اتفاق رائے سے کسی نتیجے پر پہنچے ہیں اور ممکنہ طور پر اعلان الیکشن کمیشن نے ہی کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں الیکشن ایکٹ کے حوالے سے سمجھتا ہوں کہ انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے اور اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اگر وہ سربراہ مملکت کے ساتھ ساتھ دیگر اداروں سے بھی مشاورت کرنا چاہیں تو ضرور کریں اور اس پورے عمل کی پیروی کرتے ہوئے اعلان کرنا چاہیے اور غالباً یہی انہوں نے کیا بھی ہے۔
انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے سوال پر نگران وزیر اعظم نے کہا کہ کسی سیاسی جماعت پر کوئی پابندی نہیں، کسی کو غیرقانونی قرار نہیں دیا گیا ہے، چاہے وہ جماعت اسلامی ہو، پی ٹی آئی ہو، پیپلز پارٹی ہو یا کوئی اور جماعت ہو، ان کے اپنے امیدوار ہیں جن کے وہ کاغذات نامزدگی جمع کرا سکتے ہیں، وہ کسی پارٹی کے ساتھ ہیں یا اس سے راہیں جدا کر چکے ہیں، دونوں صورتوں میں وہ الیکشن لر سکتے ہیں، تو اور کون سی لیول پلیئنگ فیلڈ ہے جو سیاسی بنیادوں پر نگران حکومت نے یقینی بنانی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں ضلعی انتظامیہ سے مشاورت کے ساتھ اپنی انتخابی سرگرمیاں کر سکتی ہیں، اس بارے میں کوئی نیا قانون نافذ نہیں کیا گیا البتہ بعض جماعتیں ووٹرز کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے بیانیہ تشکیل دیتی ہیں، کسی سیاسی جماعت پر کوئی پابندی نہیں اور سب کو انتخابات میں حصہ لینے کا مساوی حق حاصل ہے۔
عمران خان کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ کوئی بھی فرد ہو، عمران خان کی صورت میں وہ کسی پارٹی کا لیڈر ہو یا کوئی اور شخص ہو، اگر وہ دنگے فساد یا کسی اور نوعیت کے الزامات کا قانونی طور پر سامنا کر رہے ہوں اور اس قانونی عمل کے نتیجے میں وہ کسی پابندی کی زد میں آتے ہیں تو اس پابندی کا حل بھی اس نظام کے اندر ہی موجود ہے، وہ میرے کسی نوٹیفکیشن سے ختم نہیں ہو جائے گی۔
حکومت کی جانب سے معاشی استحکام کے لیے ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ وغیرہ کے خلاف کیے گئے اقدامات کے حوالے سے سوال پر انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ان اقدامات سے مارکیٹ میں اچھا تاثر گیا ہے، مجھے بتایا جا رہا ہے کہ غالباً 50 برسوں میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں انڈیکس اس ریکارڈ سطح پر نہیں آیا ہے، ہمارے ایکسچینج ریٹ میں روپے کی قدر میں اضافہ ہوا ہے جس گردشی قرضے اور معیشت پر مثبت اثرات پڑے ہیں جبکہ بیرونی قرضوں پر 4ہزار ارب روپے کا فرق آیا ہے، اس کا پورے معاشرے اور مہنگائی پر اثر پڑ رہا ہے جبکہ اشیائے خور ونوش کی قیمتوں میں کمی آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسمگلنگ اور غیر قانونی تجارت کی روک تھام کے لیے اقدامات کیےگئے ہیں، اس سے مقامی صنعتوں کو فروغ ملا ہے، ٹیکس محصولات میں بھی اضافہ ہو گا، ابتدائی دنوں میں یہ اقدامات غیر معمولی تھے اب صوبائی سطح پر تیزی اور تسلسل سے کارروائیاں جاری ہیں۔
مجرموں کو سزا نہ ہونے کے حوالے سے نگران وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے نظام میں جس طرح کے ثبوت مجرموں کے خلاف قابل قبول ہوتے ہیں وہ ہمیں نظر آ رہے ہوتے ہیں، آپ کو پتا ہوتا ہے یہ شخص ان تمام جرائم میں ملوث ہے لیکن وہ ثبوت جو عدالت میں قابل قبول ہوتے ہیں، بدقسمتی سے وہ ملنا مشکل ہوتا ہے جس سے بڑے بڑے مجرم ہمارے معاشرے میں آزاد گھوم رہے ہیں، ایسا موجود معاشی بحران سمیت کئی کیسوں میں ہوا ہے، ٹھوس شواہد نہ ہونے سے ملزمان کو فائدہ پہنچتا ہے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی مشکل ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسمگلنگ کی روک تھام سنگین چیلنج ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں، اب آئندہ حکومت کو وائٹ کالر کرائمز سمیت سماجی جرائم سے نمٹنے کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بطور معاشرہ اور ریاست اس ناسور کی تشخیص کی ہے اور موجودہ حکومت نے اس حوالے سے اقدامات کیے ہیں تاہم ماضی میں اس کو نظر انداز کیا گیا، ہمیں ملکی معیشت اور سلامتی کے حوالے سے اقدامات پر متحد ہو کر کام کرنا ہو گا۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان میں موجود 17 لاکھ کے لگ بھگ غیر ملکیوں کا کوئی ڈیٹا بیس نہیں، غیر قانونی افغان تارکین وطن کی واپسی پاکستان اور افغانستان دونوں کے مفاد میں ہے البتہ یہ افغان تارکین وطن قانونی دستاویزات پر دوبارہ پاکستان آ سکتے ہیں۔
انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ کسی کی املاک اور کاروبار کو ضبط نہیں کیا جا رہا، اگر کسی کا شہریت کا حق بنتا ہے تو وہ قانونی طریقہ کار کے ذریعے اپنا یہ حق حاصل کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جرائم میں ملوث ہر فرد کے خلاف بلاتفریق کارروائی ہو گی لیکن ملک میں موجود تمام غیر ملکی شہری جرائم پیشہ نہیں ہیں، ہمارا مقصد کسی کو تکلیف دینا نہیں، ہم منظم طریقہ کار کے ذریعے اقدامات کر رہے ہیں اور آج جو لوگ ہمیں برا بھلا کہہ رہے ہیں، آنے والے وقتوں میں وہ لوگ اس پالیسی کی تعریف و توصیف کریں گے۔
نگران وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بعض مسائل ہیں تاہم ہم ہمسائے ہیں اور نتیجہ خیز بات چیت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں لہٰذا ہمیں اور انہیں سنجیدگی سے اپنی ضروریات اور ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے خسارے کا شکار سرکاری اداروں کی نجکاری پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے، پاکستان اسٹیل ملز کی بحالی کے لیے مختلف آپشنز زیر غور ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے نگران حکومت کو بااختیار بنایا ہے اور نگران حکومت عوام کے مفاد میں زیادہ مشکل فیصلے کر سکتی ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ 9 مئی میں ملوث بعض افراد اس کی مذمت کرنے کے باوجود قانونی کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں، مقدمے میں نام آنے کے بعد قانونی طریقہ کار کے بغیر نجات پانا ممکن نہیں ہوتا، یہ تاثر غلط ہے کہ 9 مئی کے بعد پریس کانفرنس کرنے پر کیسز ختم ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ گرفتار کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اختیار ہے، تاہم قانونی طریقہ کار کے مطابق ہی کسی کو گرفتار کیا جاتا ہے، میرا خیال ہے کہ پاکستان میں سیاسی کارکنوں اور میڈیا کے لوگوں کی جبری گمشدگی نہیں ہوتی۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان اور فاٹا سمیت جہاں جہاں دہشت گردی کا سامنا ہے وہاں جبری گمشدگی کی شکایت زیادہ تھی، بلوچ طلبا میں سے کسی کو بھی غائب نہیں کیا گیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں نے سوشل میڈیا پر اپنی کردار کشی کرنے والے کسی فرد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی، تنقید کریں لیکن کسی کی تذلیل نہ کریں۔
ایک سوال کے جواب میں نگران وزیر اعظم نے کہا کہ نئی پارلیمنٹ وجود میں آنے کے بعد سیاست میں حصہ لوں گا۔
’نگران حکومت نہیں ہونی چاہیے‘
انہوں نے کہا کہ ہم جب بھی کوئی کام کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ آپ کو آنے والی حکومت کا انتظار کرنا چاہیے تو پھر رواں حکومت رکھنی چاہیے، نگران حکومت ہونی ہی نہیں چاہیے، میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ نگران حکومت نہیں ہونی چاہیے بلکہ آپ کی جمہوریت اور سیاست اتنی میچور ہونی چاہیے کہ موجودہ حکومت الیکشن کرا کر پرامن انداز میں اقتدار منتقل کرے۔
شاہد آفریدی سے ملاقات کے حوالے سے سوال پر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ شاہد آفریدی سے چیئرمین پی سی بی کے حوالے سے بات نہیں ہوئی، میں انہیں جانتا ہوں اور میری سماجی کاموں کے حوالے سے ہی ملاقات ہوئی تھی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین ذکا اشرف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ابھی ورلڈ کپ چل رہا ہے تو ہم ٹورنامنٹ کے بعد ہی دیکھیں گے کہ کیا ہونا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابھی ہم اس حوالے سے کوئی بڑا فیصلہ نہیں کریں گے کیونکہ بعض اوقات آپ کو نظریہ ضرورت کے تحت کام لینا پڑتا ہے، ورلڈ کپ سے فارغ ہوں گے تو پھر دیکھیں گے۔
واضح رہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین ذکا اشرف کی ملازمت کی مدت 4 اکتوبر کو ختم ہو رہی ہے۔