پاکستان کو ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے 340 ارب ڈالر درکار ہیں، نگران وزیر خزانہ
نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا ہے کہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے درکار اخراجات اور ترقیاتی اخراجات میں اضافے کے پیش نظر اقتصادی چیلنج کا سامنا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) کے زیر اہتمام دوسری پاکستان کلائمٹ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں ہمیں اس بات کے ادراک کی ضرورت ہے کہ ہمیں ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے رقم کی ضرورت ہے جوکہ ایک بڑا مسئلہ ہے، اس مقصد کے لیے رقم کے حصول سے دیگر ترقیاتی اخراجات کے لیے مختص رقم میں کمی آتی ہے۔
ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ پاکستان کے لیے بہترین طریقہ یہ ہوگا کہ وہ اپنی بہترین فرمز کی خدمات بروئے کار لاتے ہوئے ادارہ جاتی سرمایہ کاروں کی فنانسنگ کو راغب کرے تاکہ اس فرق کو پورا کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو 2023 سے 2030 کے درمیان ماحولیاتی اور ترقیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے 340 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، یہ رقم اس مدت کے دوران مجموعی جی ڈی پی کے 10 فیصد کے برابر ہے حالانکہ دنیا میں پاکستان گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا ایک فیصد سے بھی کم ذمہ دار ہے۔
انہوں نے کہا کہ فی الحال آئندہ 10 برس میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے اور موافقت کی کوششوں کے لیے پبلک فنانس کی مد میں صرف 39 ارب ڈالر اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے 9 ارب ڈالر ملنے کی توقع ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے چند گرین فنانس اقدامات کیے ہیں، گرین یورو بانڈز کا اجرا اس کی ایک مثال ہے، ہم یہ دوبارہ کر سکتے تھے لیکن اقتصادی مسائل کے پیش نظر مجھے لگتا ہے کہ ہمیں بین الاقوامی بانڈ کے اجرا کے لیے بہت زیادہ قیمت ادا کرنی پڑے گی، لہٰذا میں نے بطور نگران وزیر خزانہ ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس کے بجائے ہم پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے پلیٹ فارم سے فنڈ اکٹھا کرنے کو ترجیح دیں گے۔
ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ ماحولیاتی خطرات اور قرضے عالمی مالیاتی ڈھانچے کے دائرے میں ہونے والی گفتگو میں ایک بہت اہم عنصر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے سے دوچار ممالک میں شمار کیا گیا ہے، اس کے ساتھ ہی اسے قرضوں کے دباؤ کا شکار ملک کے طور پر شمار کیا گیا ہے، ملک میں تقریباً 75 فیصد محصولات قرضوں اور سود کی ادائیگی میں خرچ ہوجاتے ہیں۔
ڈاکٹر شمشاد اختر نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کے لیے ڈیفالٹ ہونے کا کوئی آپشن نہیں ہے۔